
بل دو۔بجلی لو
بجلی کے وزیرکا قابل تحسین اقدام۔۔۔۔دیر آید درست آید کے مصداق کچھ اقدامات نظر آنے لگے ہیں۔ وزارت پانی و بجلی نے پہلے مرحلے میں 100سے زائد سرکاری و نجی وفاتر کی بجلی منقطع کردی
ہفتہ 10 مئی 2014

۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ، پارلیمنٹ لاجز اور ایوان صدر کے کنکشن بھی کاٹ دئیے گئے۔ یہ تمام احکامات وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے دئیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی صرف اسے ملے گی جو بل ادا کرے گا۔ عابد شیر علی کے ان احکامات پر نہ صرف کچھ سیاستدانوں نے تعریف کی ہے بلکہ عوام میں بھی اسے اچھی خبر سمجھا جارہا ہے کیونکہ بجلی کے بلوں کی باقاعدہ ادائیگی صرف عام لوگ کرتے ہیں اور باقی مراعات یافتہ طبقہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتا۔
(جاری ہے)
پاک سیکرٹریٹ، پی ڈبلیو ڈی، سندھ ہاؤس، موٹر وے پولیس، پٹرولیم کمیشن، وزارت ماحولیات، نادرا، سی ڈی اے، ایف ڈبلیو اور پنجاب جیل سمیت دیگر بہت سے ایسے بڑے اداروں کی بجلی کاٹ دی گئی۔ ان اداروں میں صرف سی ڈی اے ہیڈ کوارٹر ایک ارب روپے سے زائد بجلی کا نادہندہ ہے۔ باقی اداروں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بہت سے نجی و سرکاری اداروں نے آئیسکون کے 3ارب روپے دینا ہیں۔یہ بھی ہدایات ہیں کہ جن علاقوں میں 90فیصد تک خسارہ ہے۔ ان علاقوں میں 20گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ کئی اہم وزارتوں کی بجلی بھی منقطع کردی گئی ہے۔ وزیر مملکت پانی و بجلی کے اس عمل کو ملک بھر میں بہت سراہا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بجلی چوری کرنے والے افراد 18کروڑ عوام کا حق مارتے ہیں۔ بجلی چوروں کے خلاف مہم ایک اچھا طرز عمل ہے۔ وہ لوگ جو پورا بل ادا کرتے ہیں انکا تعلق عام طور پر غریب اور متوسط طبقے سے ہے۔ با اثر لوگ ہی بجلی چوری کرتے ہیں اور دوسری جانب ایک بہت بڑ اطبقہ جو کارخانوں اور فیکٹریوں کی مد میں نادہندہ ہے۔ ان کا سار ابوجھ بھی غریب عوام پر پڑتا ہے۔ یوں ان بیچارے لوگوں کا کیا قصور ہے۔ جو پوری ایمانداری سے بل ادا کرتے ہیں۔ بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف ایسا ہی آپریشن چند ماہ پہلے بھی کیا گیا تھا۔ آپریشن کے ابتداء میں بہت زور شور تھا مگر بعد میں اسکے وہ نتائج نہیں سامنے آئے جو آغاز میں تھے۔ گیس کی چوری بھی عوام ہے۔ عمومی طور پر گیس کی چوری سی این جی اسٹیشن مالکان اور فیکٹری مالکان کرتے ہیں۔ گو اس میں کمی تو آئی ہے مگر مکمل طور پر اس پر قابو نہیں پایا گیا۔ کچ ایسے افراد بھی ہیں جو بجلی و گیس چوری کے خلاف کئے گئے آپریشن کو سیاسی رنگ دینے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی کسی صورت معاف نہیں کرنا چاہیے خواہ حکومت کو اس ضمن میں کتنی ہی مشکلات اٹھانی پڑیں۔ یہ ایک طرح کی سیاسی بلیک میلنگ ہے جس کے ذریعے خود کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں صرف 20فیصد لو ہی بل ادا کرتے ہیں، باقی سب بجلی چوری کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بجلی، گیس ، ٹیکس اور دیگر ایسے سرکاری وسائل کی چوری کو چوری نہیں سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ بھی چوری ہی سب سے بڑی چوری ہے۔ اگر چند بڑے بجلی چوروں کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں تو یقیناََ دوسرے چھوڑ دیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں کرپٹ واپڈ ااہلکاروں کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے سرکاری اہلکار بھی لاکھوں کروڑوں کی بجلی چوری کرانے میں ملوث ہیں۔ واپڈا اہلکاروں کی کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہاں ایک لائن میں سے لے کر بڑے بڑے افسران خود بجلی چوری کرانے میں معاونت کرتے ہی۔ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئیٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتفاق فاؤنڈری بھی 40ملین کی نادہندہ ہے مگر اس کی بجلی منقطع نہیں کی گئی۔
بلاول بھٹو کے اس بیان کا جواب تو عابد شیر علی ہی دیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے 5سالہ دور حکومت میں تو کسی بھی نادہندہ ادارے کی بجلی نہیں کاٹ گئی۔ اگر اتفاق فاؤنڈری 40ملین کی نادہندہ ہے تو پی پی حکومت نے یہ کام اس وقت کیوں نہ کیا؟
پی پی کے دور میں تو کسی نادہندہ ادارے کی بجلی منقطع کرنا تو دور کی بات ہے کسی بجلی چور پر بھی ہاتھ نہ ڈالاگیا۔ تحریک انصاف کے وائس چیئر مین شاہ محمود قریشی نے بڑے ادروں کی بجلی منقطع کرنے کا حکم دینے پر وزیر مملکت عابد شیر علی کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ ”زبردست عابد شیر علی ! آپ نے متاثر کن کام کیا ہے۔ نادہندگان بجلی کے مستحق نہیں ہیں۔“
پارلیمنٹ کے بجلی و گیس کنکشن کاٹے جانے پر چیئر مین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے سی ڈی اے پر شدید برہمی کا اظہا رکیا اور کہا کہ سی ڈی اے نے بل جمع کروائے ہوتے تو آج جنگ ہنسائی نہ ہوتی۔
وزارت پانی و بجلی نے عدم ادائیگیوں پر ایوان صدر‘ وزیراعظم سیکرٹریٹ‘ پارلیمنٹ ہاؤس‘ لاجز کے علاوہ متعدد اہم اداروں کی بجلی منقطع کردینے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ یہ عمل حقیقت میں کیا بہتری لاتا ہے۔ بجلی چوری اور نادہندہ کمپنیوں اور اداروں کے کلاف آپریشن کو خاص طورپر بغیر کسی امتیاز کے جاری رکھا جاتا ہے یا چند دنوں کے بعد معاملہ گول ہوجاتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
متعلقہ عنوان :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
-
”منی بجٹ“غریبوں پر خودکش حملہ
-
معیشت آئی ایم ایف کے معاشی شکنجے میں
-
احتساب کے نام پر اپوزیشن کا ٹرائل
-
ایل این جی سکینڈل اور گیس بحران سے معیشت تباہ
-
حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں روسی صدر کے بیان کا خیر مقدم
مزید عنوان
Bill Do Bijli Lo is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 May 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.