فیصل آباد کا مشہور جھنگ بازار

جھنگ بازار کشادہ بازار ہے اور کشادگی کا یہ عالم بھی چشم کشا ہے ۔ کچھ چھاپڑی والے 1947 ء سے یہاں بیٹھے ہیں اور کئی ایک تو بیٹے اور پوتے ، باپ دادا کی جگہ کام کر رہے ہیں

Ghazanfar Natiq غضنفر ناطق پیر 13 جنوری 2020

Faisal abad ka mashhoor jhang bazaar
فیصل آباد کے مرکزی آٹھ بازار ایک دوسرے کے ساتھ واقع ہونے کے باوجود اک دوسرے سے مختلف ہیں اور ہر بازار اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔بیوپار، کاروبار، اثر اور کلچر کے اعتبار سے ہر بازار کی حیثیت واہمیت دوسرے سے اتنی جدا ہے کہ کارخانہ بازار میں گزرنے والے کو بھول کر احساس نہیں گزر سکتا کہ وہ کچہر ی بازار میں ہے۔ اِن آٹھ بازاروں کے نام اُن کے رخ کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں۔

جو بازار جس شہر یا قصبے کے رخ پہ واقع ہے اُسی نسبت سے اُس کا نام رکھا گیا ۔ 
اِن بازاروں میں ایک بازار مشہور لوگ داستان کی کردار ”ہیر“ کے شہر جھنگ کے نام پہ جھنگ بازار ہے۔برطانوی پرچم سے مماثل شہر آٹھ بازاروں میں چار تنگ اور چار کشادہ بازار ہیں۔ جھنگ بازار کشادہ بازار ہے اور کشادگی کا یہ عالم بھی چشم کشا ہے ۔

(جاری ہے)

کچھ چھاپڑی والے 1947 ء سے یہاں بیٹھے ہیں اور کئی ایک تو بیٹے اور پوتے ، باپ دادا کی جگہ کام کر رہے ہیں۔

یہاں تجاوزات میراث کی طرح نسل در نسل چلتی ہیں۔ کوئی سخت گیر افسر آتا ہے اور چند روزہ تجاوزات ہٹاؤ مہم ختم ہوتی ہے اور بازار میں پھر تجاوزات کی بھر مار ہو جاتی ہے۔
یہ ہیر کے شہر سے نسبت ہے کہ اتفاق۔۔۔ جھنگ بازار کے بالکل شروع میں داہنی طرف ایک بانسری فروش کا ٹھیلہ ہے، جو بانسری بجا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔درد کی” تانیں“ سن کر اہلِ دل کے قدم رکیں نہ سہی ذراسی دیر کو آہستہ ضرور ہوتے ہیں، کچھ دل جلے بانسری خریدتے ہیں اور یوں بانسری فروش کچھ روپے کمانے میں کامیاب ہوتاہے۔

شہر کے مرکزی آٹھ بازاروں میں جہاں لاکھوں ، کروڑوں کا کاروبار ہوتاہے وہاں ایک آدھ بانسری بھی بکتی ہے۔ جھنگ بازار میں اِسی بانسری فروش کے قرب میں ایک ریسٹورنٹ ہے جہاں کے مرغن کھانے شہر والوں کو مرغوب رہے ہیں ۔ گھی اور مصالحہ میں پکے کھانے پسند کرنے والے یہاں کھچے چلے آتے ۔۔۔۔ یہاں سستی گارمنٹس اور سستی سبزیاں ،پھل اِس بازار کو عوامی بازار بناتی ہیں۔

بازار کے تقریباََ وسط میں ریگل سینما کی عمارت ہے ۔ یہ سینما قیامِ پاکستان سے پہلے کا ہے۔ کتنے فلمی ستاروں کو چمک دمک دینے والے اِس سینما کی عمارت اب بوسیدگی کا شکار ہو چکی ہے۔ نصف عمارت مارکیٹ میں بدل چکی ہے اور نصف عمارت عدالت میں فیصلہ ہو جانے کے بعد دکانوں اور مارکیٹ میں بدل جائے گی اور ریگل سینما بس اِک یاد بن کر رہ جائے گا۔
ریگل سینما جہاں کتنے لوگوں نے زندگی کی اوّلین فلم دیکھی ہو گی۔

کوئی اپنے امی ، ابو کے ساتھ پہلی بار سینما گیا ہو گااور کوئی اپنی نئی نویلی دلہن کو فلم دِکھانے لے گیا ہو گااور فلم کم اپنی دلہن کو زیادہ دیکھتا ہو گا۔دلہن کی شرمیلی آنکھیں آج بھی اُسے فلم کے کسی سین کی طرح یاد ہوں گی۔ اِس سینما میں کوئی اپنی محبوبہ کے ساتھ دیکھی فلموں کو آج تک نہ بھولا ہو گا۔ دل والے جو یہاں کبھی دل لگانے آتے تھے، یہاں سے دل تھام کر گزرا کریں گے کہ سینما نہیں رہے گا۔

ریگل روڈ کے بائیں طر ف لسوڑی شاہ کا مزار ہے جہاں عقید ت مند حاضری کے لیے آتے ہیں۔ مزار کی عقبی گلی میں حزیں لدھیانوی رہائش پذیر رہے اور یہیں قرب میں نصرت فتح علی خاں کا گھر تھا۔ نصرت کی زندگی کے بیشتر سال اِدھر ہی گزرے۔یہاں برتنوں کی دکانیں ہیں جہاں نئے برتنوں کی فروخت اور پرانے برتنوں کی خریداری ہوتی ہے۔پیتل ، تانبے ، کانسی اور سلور کے پرانے برتن شہر بھر سے یہاں لائے جاتے ہیں۔

پرانے برتن آگ میں تپ کر کسی نئے سانچے میں ڈھلتے ہیں اور پھر ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔نئے سے پرانے اور پرانے سے نئے کا سفر کہاں رکا ہے۔
یہیں مچھلی فروش ہیں سردی کے دِنوں میں خوب مچھلی بکتی ہے۔جھنگ بازار کے وسط میں دائیں طرف گول گھی والا اور بائیں طرف گول لکٹر والا ہے۔گھی کی ایک ، دو دکانیں رہ گئی ہیں اور گول لکڑ والے میں لکڑی ٹال ختم ہوئے مدت ہوئی۔

جھنگ بازار میں ایک پارک تھاجو دائرہ کی شکل میں تھا اور گول باغ کے نام سے معروف تھا ، وہ بھی عرصہ ہوا ختم ہو گیا۔اب یہاں ارشد مارکیٹ ہے،باغ کے سامنے بکرا منڈی تھی جہاں اب جامع مسجد ہے۔ عوام الناس اِسے مولانا محمد سردار احمد کی مسجد کے نام سے پکارتے ہیں۔ اِسی مسجد کے احاطے میں مولانا دفن ہیں۔مولانا محمد سردار 1948 میں فیصل آباد آئے اور گول باغ میں ڈیرہ ڈالا۔

یہیں درسِ حدیث کا آغاز کیا۔ 2 جنوری1950 کو” جامع رضویہ مظہرالسلام “کے نام سے ایک دینی ادارے کی بنیاد رکھی اِس ادارے سے اب تک ہزاروں علما کرام اور مشایخ عظام فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ شہرمیں رویتِ ہلال شوال پہ علما کا اختلاف ہو جایا کرتاتھا۔ اور اِسی فیصل آباد میں جب یہ لائلپور تھا دو عیدیں منائی جاتی رہی ہیں ایک گروہ کہتا کہ کل روزہ ہے اور دوسرا کہتا کہ کل عید ہے۔

مساجد کے لاؤڈ سپیکروں پر اپنے اپنے موقف کی بھر پور تائید کی جاتی ہے۔مگر اِس اختلاف کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو گلے لگاتے ، بغض و کدورت کی فضا نہ جھنگ بازار میں رہی ہے اور نہ کبھی اِس شہر میں۔۔۔۔۔
اِسی مسجد کے پاس شہر کی واحد پرندہ مارکیٹ ہے جہاں پرندوں اور پالتو جانوروں کی خریدوفروخت ہوتی ہے ۔ یہیں سری پائے بھی بھوننے کے لیے بھٹیاں بنائی گئی ہیں سو محکمہ لائیو سٹاک اور محکمہ ماحولیات کے ملازمین کبھی کبھی قانونی کاروائی کرنے چلے آتے ہیں۔

میونسپل کارپوریشن کے عملے کی مضحکہ خیز کاروائی تو اکثر یہاں جاری رہتی ہے۔ کارپوریشن کی ٹوٹی اور خستہ حال گاڑی کے سامنے سے تجاوزات جلدی جلدی اُٹھا ئی جا رہی ہوتی ہیں اور گاڑی کے چند قدم گزرنے پر پھر ریڑھیوں اور چھا بڑیوں اور آن موجود ہوتے ہیں ۔ خبر نہیں گاڑی میں بیٹھے ملازمین پیچھے مڑ کر دیکھ سکتے ہی نہیں۔۔۔؟یا پھر حکومتیں اور حکومتی ادارے بس آگے کی سوچتے ہیں اور آگے دیکھتے ہیں کہ” مصداق “پیچھے مڑنا یا پیچھے دیکھنا خطا خیال کرتے ہوں۔

اِسی جھنگ بازار میں ہارڈ وئیر اور بچوں کے کھلونو ں کی بھی کچھ دکانیں ہیں ۔ بچوں کے کھلونوں کی دکانوں کی یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف تو بچہ کھلونا لینے کی ضد کر تاہے اور دوسری طرف دکاندار کھلونا بیچنے پر بھرپور زور لگاتاہے۔ دکان سے خالی ہاتھ نکلے گاہک کے بازوں پکڑ کر روکنا تو یہاں ایک عام سی بات ہے۔

اِس لیے شریف گاہک ”ضداورزور“ سے زچ ہو کر کچھ نہ کچھ خریدنے میں ہی عافیت جانتا ہے۔سبزیوں اور پھلوں کے نرخ شام ڈھلے ہی گِر جاتے ہیں اِس لیے یہاں رات کو خریداروں کا رَش رہتاہے اور کئی بار بیچنے والے اک ، دوسرے کے مقابلے میں اپنے سودے کی قیمتوں کو کم کر کے گاہکوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔یہ ہے فیصل آباد کا مشہور جھنگ بازار جہاں زندگی اپنے کئی رنگوں کے ساتھ رات گئے تک رواں دِکھائی دیتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Faisal abad ka mashhoor jhang bazaar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 January 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.