بھارت میں قرآن مجید کی تعلیم پر پابندی

نئے ہندو توا قانون کے تحت اسلامی مدرسوں کو ختم کر دیا گیا

بدھ 20 جنوری 2021

India Mian Quran e Majeed Ki Taleem Per Pabandi
رابعہ عظمت
علامہ اقبال کا فرمان ہے”انقلاب!ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کر دے۔یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی۔ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو ،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مکتبوں میں پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟جو کچھ ہو گا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔

اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرووں اور اسلامی تہذیب کے آثار کو کوء نقش ہی نہیں ملتا،ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔

(جاری ہے)

“اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دل ہے دل اگر پورے جسم میں خون پہنچاتا ہے اور اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے تو یہ دینی مدارس بھی امت مسلمہ کو دین کا خادم،مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں۔
جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا وجود متحرک زندہ اور فعال رہتا ہے۔مسلم تاریخ کا مطالعہ کرنے پر آپ کو معلوم ہو گا کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوء آندھی اٹھی تو ان مدارس اور دینی جامعات کے فارغین اور فضلاء نے ہی اس باد سموم اور باد سرسر کا مقابلہ کیا اور امت محمدیہ کو راہ حق کی رہنمائی کی۔

دینی مدارس اسلام کی حفاظت گاہیں ہیں،ان مدارس کا سب سے بڑا کمال یہ ہے ،کہ ان کے بانیوں نے سرکاری مداخلت سے آزاد ہو کر ایسے دینی تعلیم کے نظام کی صورت دریافت کیا،جو غریب سے غریب مسلمانوں کے گھر میں علم کی شمع جلا سکے اور ہر کچے گھر میں دینی تعلیم کی شعاعیں پہنچ سکیں،اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا اور مسلمانوں کا اپنے دین اور مذہب سے نہ صرف رشتہ باقی رکھا۔

بلکہ اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہوئے۔سب کو اعتراف ہے کہ جاں گسل حالات کے باوجود آج بھارت میں اس شان و بان کے ساتھ اسلام کا باقی رہنا دینی مدارس کے ہی مرہون منت ہے۔اس وقت کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ جو ادارے متاثر ہونے ہیں ان میں دینی مدارس سب سے آگے ہیں۔
اسلامی تشخص اور شعائر کو فروغ دینے کے لئے علم بردار یہی مدارس ہیں۔

قرآن و حدیث سے مسلمانوں کا رشتہ انہیں مدارس کی وجہ سے برقرار ہے۔مساجد اور مکاتب انہیں مدرسہ والوں کی وجہ سے آباد ہیں۔ایک انگریز دانشور نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں پر حکومت کرنا ہے اور انہیں اپنا مطیع اور غلام بنانا ہے تو انہیں قرآن پاک سے دور کر دو،جب وہ قرآن پاک نہیں پڑھ سکیں گے تو ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بھی نہیں گزار سکیں گے۔

لیکن اس طرح کی کوئی بھی سازش کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکی ہے۔ارباب اقتدار اور اسلام دشمن عناصر کی یہ تمام ترکیبیں بے اثر اور رائیگاں ثابت ہوئی ہیں۔مدارس اسلام کا قلعہ ہے،اسلامی تہذیب و ثقافت کے علم بردار ہیں۔برصغیر کی تہذیبی،ثقافتی، سماجی،تعلیمی اور معاشی اصلاحات میں مدارس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
حالانکہ دستور ہند کی دفعہ نمبر 30 کے تحت بھارت میں تمام اقلیتوں کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے کھولنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق مدرسے سے لے کر اسکول تک تمام تعلیمی ادارے آتے ہیں لہٰذا حکومت کا یہ اقدام نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے۔ہندوستان میں دینی مدارس کی تعداد تقریباً لاکھوں سے زائد ہے جہاں سے ہر سال کم و بیش پندرہ ہزار طلبہ فراغت حاصل کرتے ہیں۔ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے مدارس میں کچھ وہ ہیں جن کا شمار سرکاری بورڈ کے تحت ہوتا ہے۔

بہار،بنگال،آسام،یوپی اور ایم پی میں اسکول بورڈ کی طرح باضابطہ مدرسہ بورڈ ہے۔بورڈ سے منسلک طلبہ اپنی اہلیت کے دائرے میں سرکاری ملازمت کے حقدار ہوتے ہیں ۔انہیں سرکاری امداد ملتی ہے۔دوسرے لفظوں میں انہیں گورنمنٹ اسکول کی طرح گورنمنٹ مدرسہ کہا جاتا ہے۔مدرسہ عالیہ کلکتہ یونیورسٹی لیول پر مسلسل ترقی کر رہی ہے۔بقیہ مدارس و ہ ہیں جنہیں حکومت سے کسی طرح کی کوئی امداد نہیں ملتی ہے۔

ملت اسلامیہ کے تعاون سے وہ مدارس چلتے ہیں۔
گزشتہ یو پی اے حکومت کے دوران مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویزیں بارہا زیر غور آئی لیکن مسلم قیادت نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ریاستی سطح پر جو بورڈ ہیں وہ ناکامی کے شکار ہیں۔ڈگری ملنے کے سوا کسی طرح کی قابلیت اور صلاحیت وہاں کے طلبہ کو نہیں مل سکی ہے ۔ایسے میں مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام دینی مدارس کو تعلیمی انحطاط سے دو چار کرنے اور اصل مقصد سے منحرف کرنے کا ایک منصوبہ تھا لیکن اس میں حکومت کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

2013ء میں محمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹ نے مہاراشٹر حکومت سے مہاراشٹر مدرسہ بورڈ تشکیل دینے کی سفارش بھی کی تھی۔مہاراشٹر کے دینی مدارس کی تعداد تقریباً 1900 سے زائد ہے۔یہاں دو لاکھ کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جن کی مکمل کفالت من جانب مدرسہ کی جاتی ہے۔حکومت نہ طلبہ کو نہ ہی مدارس کو کسی طرح کا امداد دیتی ہے۔بی جے پی کی زیر قیادت آسام کی بھگوا حکومت کا یہ فیصلہ اسی مذموم سلسلے کی عملی کڑی ہے جس کو نافذ کرنے کے لئے اب باضابطہ طور پر قانون کا سہارا لیا گیا ہے۔

شمال مشرقی ریاست آسام میں مودی سرکار نے مسلم دشمنی کا ایک اور اقدام اٹھاتے ہوئے ریاست میں جدید تعلیم کی آڑ میں قرآن پاک کی تعلیم پر پابندی کا نیا قانون منظور کر لیا ہے۔
بھگوا حکومت کے نئے ہندو توا قانون کے تحت 700 سے زائد مدرسوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔حالانکہ آسام میں مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد ہے اور ایک تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔

آسام میں اسلامی مدرسوں میں تعلیمی سلسلے کا آغاز 1780 ء میں شروع ہوا تھا جس پر انگریزی دور تسلط بھی پابندی عائد نہ کر سکی۔بھارتی ریاست آسام میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔جبکہ متنازعہ شہریت ترمیمی بل کے بعد اسلامی مدرسوں کی بندش یہ آسامی مسلمانوں پر دوسرا بڑا حملہ ہے۔آسام کے مسلمان کئی دہائیوں سے آر ایس ایس کے نشانے پر ہیں اور روہنگیا مسلمانوں کی طرح آسامی مسلم برادری کو در بدر کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔

تاہم مذکورہ نئے قانون کے مطابق مدارس سے متعلق کئی پرانے قوانی حذف کر دیئے گئے ہیں۔جن میں آسام میں مدرسہ ایجوکیشن صوبائی قانون 1995ء آسام مدرسہ ایجوکیشن پراونشل سروس آف ایمپلائزر آرگنائزیشن اور مدرسہ ایجوکیشن انسٹیٹیوشن ایکٹ 2018ء شامل ہیں۔بل کے مطابق آسام کے تمام دینی مدرسوں کو پرائمری،ہائی اور ہائر سکینڈری سکولز میں تبدیل کیا جائے گا۔

مسلمانوں کے دھوکہ دینے کے لئے یہ بھی کہا گیا کہ سکولوں میں تبدیل کرنے والے مدرسوں کے بنیادی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور پے الاؤنس اور سروس کمیشن جوں کے توں رہیں گے۔ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کو جو تنخواہیں دی جائیں گی وہی قواعد برقرار رہیں گے۔تاہم اس گمراہ کن دعوے کی حقیقت اس وقت کھل کر سامنے آئی جب بل میں قرآنی تعلیمات پر پابندی کی شق پر پابندی لگنے کا انکشاف ہوا۔


جب مدرسوں،سکولوں میں تبدیل کر دیئے جائیں گے تو قرآن پاک کی تعلیم نہیں دی جائے گی۔یاد رہے کہ آسام میں مدرسوں کے خلاف یہ سازش مرحلہ وار پائی گئی ہے اکتوبر حکومت کا کہنا تھا کہ چونکہ مدارس کو سرکار سے فنڈز ملتا ہے لہٰذا 148 اساتذہ کو مدرسوں سے عام سکولوں میں ٹرانسفر کر دیئے جائیں گے۔اس کے بعد کہا گیا کہ مدرسوں کا نظام بہتر کیا جا رہا ہے اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی جاری رہیں گی۔

اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اصل ہدف قرآن کی تعلیم پر پابندی تھا جو حاصل کر لیا گیا ہے۔نئے قانون کے تحت قائم آسام میں سرکاری بورڈ کے تحت آنے والے 700 مدرسے بند ہو رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ آسام کے جن مدرسوں کو سکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے وہاں عصر علوم کی تعلیم تو پہلے سے ہی دی جا رہی تھی۔یہ سرکاری مدرسے بورڈ کے تحت آتے تھے،مگر پھر بھی آسام اسمبلی میں بل منظور کرکے مسلمانوں کو عصری تعلیمی اور مراعات کا راگ الاپ کر دھوکہ دیا گیا۔

آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ میں مدرسوں کی نگرانی کرنے والی ایک شاخ موجود ہے جسے مدرسہ شکشا بورڈ کا نام دیا گیا ہے۔شہ شاخ ان مدرسوں پر کڑی نگرانی کر رہی ہیں جو کسی بھی مشکل میں سرکاری گرانٹ حاصل کرتے ہیں۔راشٹریہ مسلم منچ کے پاس بھارت میں موجود تمام مدرسوں کی مکمل فہرست موجود ہے۔اور وہ اپنے خفیہ مشن پر کام کر رہی ہے۔ آسام میں سرکاری فنڈ سے چلنے والے اسلامی مدارس کو ختم کرنے کا کام اسی تنظیم کے ایماء پر کیا گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

India Mian Quran e Majeed Ki Taleem Per Pabandi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.