
کشکول میں ڈالر اور معاشی آزادی کا خواب
ہمارے ہاں روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی بحران جنم لے یا کوئی مشکل پیش آئے تو حکمران اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کی بجائے غیروں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ۔
منگل 18 ستمبر 2018

ہمارے ہاں روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی بحران جنم لے یا کوئی مشکل پیش آئے تو حکمران اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کی بجائے غیروں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ۔ اور اگر کوئی مدد کی حامی بھر لے توان حکمرانوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیںاور ان کے ہاتھ بڑے بڑے کشکولوں میں بدل جاتے ہیں۔ 70ء کی دہائی سے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا اختتام نہ ہو سکا۔ ہر دفعہ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والوں نے اس کو بڑا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اس قوم کو پیشہ ور بھکاری بنا دیا۔ ہر قومی افتاد کو مال بنانے کا ایک وسیلہ سمجھ لینے کی روش ہر دور میں کسی نہ کسی طور موجود رہی، چاہے یہ مشرف کا دور ہو یا زرداری کا جب کہ مسلم لیگ (ن) اسے معیشت کی بحالی کی حکمتِ عملی کا نام دیتی رہی۔
(جاری ہے)
جو ہمارے ہاں آتا ہے یا جہاں ہم جاتے ہیں اپنی کسمپرسی کا واویلہ کر کے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔
انہی ممالک سے مانگتے ہیں جو ہماری آزادی اور خود داری کے درپے ہیں۔ اب تو ہماری حالت اس بھکاری کی طرح ہو گئی ہے جو جسمانی اور مالی طور پر بہتر ہونے کے باوجود عادتاً بھیک مانگتا ہو۔ان کے اسی طرزِ عمل سے پاکستان کے قرضے تاریخ کی سب سے بلند ترین سطح یعنی 94ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں۔ اگرغور کریں تو ایک بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ پاکستان 60ء کے عشرے سے امریکہ اور مغرب کا عملی طور پر ساتھ د یئے جا رہا ہے اس کے باوجود امریکہ نے دفاعی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے استحکام حاصل کرنے میں پاکستان کی حتی المقدور مدد نہیں کی۔ استحکام حاصل کرنے میں پاکستان کو اپنی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لئے 24بلین ڈالر درکار ہیں۔ ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے لئے یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے لیکن آج جب پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مدد کی ضرورت ہے۔ تو امریکہ نظریں پھیرے ہوئے بیٹھا ہے اور کروڑوں ڈالر کی امداد روک لی ہے۔ امریکہ جو امداد دیتا بھی ہے اس کا زیادہ حصہ واپس امریکہ کو چلا جاتا ہے، مشیروں، ماہرین کی خدمات، منصوبوں کی تیاری اور دیگر خدمات کے عوض بھاری بھرکم رقوم واپس امداد دینے والے ملک میں پلٹ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے وسائل کو بروئے کار لانے، سرکاری اخراجات میں کمی کر کے محاصل کا رخ ضروری مدات کی طرف موڑنے، ٹھوس اقتصادی ترقی کے لئے زرعی اور صنعتی سیکٹر کو فروغ دینے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے ، برآمدات کے لئے منڈیاں تلاش کرنے اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے دیر پا اور ٹھوس منصوبہ بندی جیسی ترجیحات کی کمی رہی ہے۔ ہر معاملے میں امریکہ ، یورپ اور مالی اداروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کو قوم کے سامنے تفاخر کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا۔سابق وزرائے خزانہ کسی بھی شخصیت کی آمد کے بعد فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ قوم کو خوشخبری سناتے تھے کہ پاکستان کو فلاں مد میں اتنی امداد ملے گی اور اتنے ڈالرز کے لئے وعدے کئے گئے ہیں۔ لیکن قوم کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے بدلے میں ڈونرز کے ساتھ کس قسم کے وعدے کئے گئے ہیں۔
گداگرانہ سوچ پر مبنی یہی طرز عمل ہے جس نے پاکستان پر بیرونی دباؤ حد سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ جب بھی کوئی امریکی اہلکار پاکستان آتا ہے تو وہ دباؤ میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی کچھ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کرنے کوشش کی جسے ہماری حکومت نے بڑی عمدگی سے احساس دلا دیا کہ ہمیں برابری کی بنیاد پر معاملات کو آگے بڑھانا چاہیئے۔ بڑے بڑے ممالک قرضے بھی لیتے ہیں انہیں امداد کی بھی ضرورت رہتی ہے لیکن شائد ہی تیسری دنیا کے کسی ملک کا حکمران ایسا رویہ اختیار کرتا ہو گا جیسا کے ہمارے حکمران اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے کارن غیر مہذب امریکی جب بھی پاکستان آتے ہیں ہمیں طرح طرح کی سناتے ہوئے ہمارے دشمنوں کی تعریفیں کرتے ہیں اور ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں۔ امریکی حکام کا یہ رویہ اس لئے بھی جارحانہ ہے کہ ان کی جیبوں میں ڈالر اور ہمارے پاس کشکول ہے جو بھرتا ہی نہیں ۔ کشکول اٹھانے والے ہاتھ پہلے کشکول اپنے جیبوں میں خالی کرتے ہیں اور کچھ بچ رہے تو قوم کو صرف اطلاع کردیتے ہیں، اس میں سے دیتے دلاتے کچھ نہیں ۔
لیکن یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ نو منتخب حکومت نے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے امریکی امداد کی پروا کئے بغیردباؤ کو مسترد کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ اولین ترجیح رہے گی، امریکیوں کا ہر مطالبہ پورا نہیں کیا جا سکتا اور دونوں ملکوں نے علاقائی اور عالمی سلامتی کے لئے پائیدار اشتراکِ عمل پر زور دیا ہے۔ پاکستان دو طرفہ تعلقات میں اپنے وقار اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ پاک امریکہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ مستحکم کی جائے گی اور پاکستان کی معاشی، عسکری اور سماجی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ خوش آئند بریک تھرو متوقع تو تھا ہی کیونکہ عمران خان نے گزشتہ حکومت کو بارہا امریکہ کے سامنے غیر ضروری گھٹنے ٹیکنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اپنے برسرِ اقتدار آنے کی صورت میں اس صورتحال سے چھٹکارا پانے کا وعدہ کیا تھا۔ امریکی امداد اور پاکستان کے ساتھ اس کے تاریخی تعلقات میں نشیب و فراز کی داستان بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ اس ضمن میں امریکی دانشور ڈینیل مرکی نے اپنی کتاب "نو ایگزٹ فرام پاکستان" میں زمینی حقائق سے جڑا ہوا فکر انگیز تجزیہ پیش کیا ہے ۔ ان کا استدلال ہے کہ پاک امریکہ تعلقات ایک ایسی صورتحال ہے جسے تدبر سے سمجھا اور برتا جائے نہ کہ ایک دردِ سر مسئلہ کے طور پر اس کے حل میں توانائی صرف کی جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
kashkaul mein dollar aur muashi azadi ka khawab is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 18 September 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.