
خریدو فروخت کیلئے ایوان کو منڈی بنانے کی کوشش
5 مارچ کو سینٹ کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے بڑے بڑے جغادری رہنماوٴں نے ہارس ٹریڈنگ کا وہ واویلا کیا کہ محسوس ہوتا ہے کہ منتخب نمائندگان اسمبلی ووٹوں کے سوداگر ہیں
جمعہ 27 فروری 2015

5 مارچ کو سینٹ کے الیکشن ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے بڑے بڑے جغادری رہنماوٴں نے ہارس ٹریڈنگ کا وہ واویلا کیا کہ محسوس ہوتا ہے کہ منتخب نمائندگان اسمبلی ووٹوں کے سوداگر ہیں اور سینٹ کا الیکشن نہیں ہو رہا بلکہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ رائے ظاہر کرنے میں کوئی باک نہیں کہ پاکستانی قوم میں اکثریت انتہا پسند ہے کسی کو فرشتہ قرار دینے میں انتہا پسندی کی جاتی ہے اور کسی کو شیطان کا درجہ دینے میں بھی انتہا پسندی سے کام لیا جاتا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں روپے کا ووٹ خریدنا ہر ”مما شما“ کا کام نہیں ہے۔ ماضی میں سینٹ کے لئے ووٹوں کی خریداری کے سلسلے میں ایک ہی معروف خاندان نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے۔
(جاری ہے)
پہلے باپ اور پھر باپ بیٹا دولت کے بل بوتے پر سینٹ کے ممبر رہے اب بھی اس خاندان کے دو افراد میدان میں ہیں۔
ہمیں حیرت ہے کہ اْن امیدواروں یا اْن کے خاندان کا نام تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لیا اور نہ ہی جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے لیا۔
اب ہم پنجاب سے سینٹ کے الیکشن کی طرف آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سینٹ کی سات جنرل، ٹیکنو کریٹ/ علماء کی دو اور خواتین کی دو نشستوں کے لئے بحیثیت امیدوار اپنی جماعتوں کے عہدیدار اور کارکن اتارے جو کہ خوش آئند ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اعلان کردہ امیدواروں میں وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی اس لحاظ سے خوش قسمت قرار نہیں دئیے جا سکتے کہ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے مرحلے میں معلوم ہوا ہے کہ بیورو کریسی نے ڈیڑھ سال پہلے اُن سے ہاتھ کر دیا تھا۔ معاون خصوصی یا مشیر کی طرح اُن کے تنخواہ اور مراعات نہیں دی گئی تھیں بلکہ 21ویں گریڈ کے افسر کا سٹیٹس تھا وہ الیکشن لڑنے کی اہلیت سے محروم ہو گئے۔ وزیراعظم پاکستان کو اپنے قابل اعتماد کارکن کے الیکشن لڑنے سے محروم رہ جانے پر دلی افسوس ہوا ہے۔ اُدھر اُن کی جگہ سندھ سے مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر سلیم ضیاء کو لایا گیا ہے اْن کو کوررنگ امیدوار چلتے پھرتے مسلم لیگی مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کے سابق صدر خواجہ محمود احمد اور گورنر پنجاب کے فیورٹ قرار دئیے جانے والے امیدوار سعود مجید بنائے گئے تاہم سعود مجید کے کاغذات مسترد کر دئیے گئے اور اب وہ الیکشن کمیشن کے پاس اپیل میں جا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی ندیم افضل چن اور شوکت بسرا کو میدان میں اتار کر یہ پیغام دیا کہ پیپلز پارٹی میں آج بھی سیاسی کارکنوں کے لئے آگے بڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔ ندیم افضل چن اور شوکت بسرا کے سامنے لانے میں پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ میاں منظور وٹو بہت پُرامید ہیں کہ پنجاب سے سینٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی سرپرائز دے گی اور ایک سیٹ نکال لے گی حالانکہ ہماری رائے میں پنجاب سے گیارہ کی گیارہ نشستیں مسلم لیگ (ن) باآسانی جیت جائے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Kharid o Farookhat K Liye Ewaan Ko Mandi Banane Ki Koshish is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 February 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.