مادرملت فاطمہ جناح رحمة اللہ علیہ

آپ کی عملی جدوجہد سے خواتین نے تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا عظیم بھائی کی اہلیہ کے انتقال کے بعد اپنی زندگی ان کیلئے وقف کردی

منگل 9 جولائی 2019

Madr e millat Fatima Jinnah RA
 پیر فاروق بہاؤالحق
محترمہ فاطمہ جناح 31جولائی1893کو کراچی میں پیدا ہوئیں جب ان کی عمر دوسال ہوئی تو ان کی والدہ مٹھی بائی انتقال کر گئیں جس کے بعد ان کی بڑی بہن مریم جناح نے فاطمہ جناح کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری سنبھالی۔محترمہ فاطمہ جناح اپنی عادات واطوار اور شکل وشباہت سے اپنے بھائی محمد علی جناح کے مشابہ تھیں۔یہ اس دور کی بات ہے جب قائداعظم محمد علی جناح تعلیم کے سلسلہ میں برطانیہ میں مقیم تھے اور وہیں قیام کے دوران ان کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی۔

قائداعظم محمد علی جناح اگر چہ اپنی بہن کو نہیں دیکھا تھا لیکن ان کے دل میں قدرتی طور پر محترمہ فاطمہ جناح کے لئے شفقت اور پیار کا ایک سمندر موجزن تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز 1900میں ہو ا اور اس وقت کے رواج کے مطابق گھر میں دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

1902ء میں محترمہ فاطمہ جناح کے والد کا انتقال ہو گیا تو ان کے تعلیمی معاملات قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔

جب مسلمان بچیوں کو انگریزی تعلیم دلانے کا تصور بھی محال تھا اور دور میں قائداعظم نے اپنی بہن کے لئے باندرہ کانونٹ سکول کا انتخاب کیا۔سکول میں داخلے کے بعد آپ کو روایتی گھریلو ماحول سے نکال کر ہاسٹل میں داخل کرادیا گیا۔یہاں ہر کلاس میں آپ امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرتی رہیں۔1906ء میں آپ کو سینٹ پیٹرک سکول کھنڈوالر میں داخل کرادیا گیا اور اسی سکول سے 1910میں میٹرک کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

1913میں محترمہ فاطمہ جناح کے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا یہ وہ موقع تھا جب دونوں بہن بھائیوں نے والدین کی کمی کو محسوس کیا قائد اعظم کو یہ کہتے سنا گیا کہ اگر آج ہمارے والدین زندہ ہوتے تو ہماری کامیابی پر بہت مسرورہوتے۔کچھ عرصہ ان کی زندگی ایک مخصوس ڈگر پر چلتی رہی یہاں تک کہ 1919ء میں آپ نے ہندوستان کے واحد ڈینٹل کالج جس کا نام علی محمد ڈینٹل کالج تھا اس میں داخلہ لیا اور 1922ء میں یہاں سے فارغ التحصیل ہوئیں۔

یہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے اطمینان محسوس کیا اور عوامی ،سماجی خدمت کا فیصلہ کیا۔انہوں نے فوری طور پر ممبئی کی عبدالرحمان سٹریٹ میں ایک ڈینٹل کلینک کا آغاز کر دیا۔اس کلینک کے ذریعہ محترمہ فاطمہ جناح غریبوں کا مفت علاج کرتیں۔
20فروری1929ء کو قائد اعظم کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو اپنے بھائی کے گھر کی دیکھ بھال کیلئے انہوں نے اپنا کلینک بند کر دیا اور تمام وقت اپنے عظیم بھائی کی خدمت میں صرف کرنا شروع کر دیا۔

مادرملت نے 1937ء میں پہلی بار آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کی جو کہ لکھنو میں منعقد ہوا۔
1938ء میں مادرملت نے ممبئی صوبائی مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔1939میں آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی۔تحریک پاکستان کے ابتدائی ایام میں قائداعظم محمد علی جناح نے خواتین سے روابط کی ذمہ داری مادر ملت کو سونپ دی۔اس ساری کاوش کے عوض و ہ کسی بھی عہدے کی دعویدار نہ تھیں ۔

کسی بھی قسم کے لالچ سے بے نیاز ہو کر محترمہ فاطمہ جناح نے برصغیر کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔وہ سمجھتی تھیں کہ خواتین کے فعال کردار کے بغیر تحریک پاکستان کا میابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی چنانچہ انہوں نے پورے برصغیر کی خواتین میں ایک نئی روح پھونک دی انہوں نے دوپٹے کو پرچم بنالیا اور مردوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں اتر آئیں۔

جب مسلم لیگ کے لئے فنڈز کی اپیل کی جاتی تو محترمہ فاطمہ جناح کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے خواتین اپنے زیور قائداعظم کے قدموں میں ڈھیر کر دیتیں۔اس تحریک کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کی نگرانی میں ہزاروں سکول کھول دئیے گئے۔جہاں بچوں کو مختلف فنون کی تربیت دی جاتی اور ساتھ ساتھ ان کو تقسیم ہند کے بعد پیش آنے والے حالات کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا جاتا۔

کئی خواتین نے نیشنل گارڈ کی طرز پر تربیت کا اہتمام شروع کردیا جس میں مسلم خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد زخم خوردہ قافلوں کی دیکھ بھال کا فریضہ محترمہ فاطمہ جناح نے خود سر انجام دیا۔مادر ملت کی قیادت میں خواتین کیلئے کھانے پینے کا سامان کیمپوں تک پہنچایا جاتا۔زخمیوں کی مرہم پٹی ،جلے ہوئے مہاجرین اور حاملہ خواتین کے لئے علاج معالجہ کی خود نگرانی کرتی رہیں۔

یہ مادر ملت کی حوصلہ افزائی اور ولولہ انگیز قیادت کا اثر تھا کہ خواتین نے اپنا مال اور جان پاکستان پر قربان کردیا۔
قائد اعظم کی وفات کے بعد مادرملت نے ملک بھرکی متمول خواتین کو ایک جگہ اکٹھا کر کے ان کو بھر پور کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔مہاجرین کی بحالی کے لئے محترمہ فاطمہ جناح نے ایک فنڈ قائم کیا جس کے ذریعہ بے گھر ہونے والے مہاجرین کی مدد کی جاتی رہی ۔

محترمہ فاطمہ جناح ملک میں جمہوری روایات کی علمبردار تھیں وہ یہ سمجھتی تھیں کہ یہ ملک ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آیا ہے اس لئے یہاں پر مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے ملک پر مارشل لاء کا سایہ برداشت نہ کر سکیں اور آمر کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئیں۔1965ء کے صدارتی انتخاب میں بطور امیدوار مہم کا آغاز کیا تو روزنامہ نوائے وقت کے صفحات مادرملت کے ترجمان بن گئے۔

حکومت کے دباؤ کے باعث تمام اخبارات نے مادرملت کی سرگرمیوں کا بلیک آؤٹ کیا لیکن نوائے وقت اور مجید نظامی مرحوم نے پاکستان کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کردیا اور تمام دھمکیوں اور ترغیبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مادر ملت کی سرگرمیوں کی کوریج دینا شروع کردی۔جب حکومت کے حاشیہ بردار اخبار مادرملت کے خلاف زہراگل رہے تھے نوائے وقت کے صفحات بانی پاکستان کی بہن کے لئے سراپا سپاس بنے ہوئے تھے۔

محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرا دیا گیا لیکن اس دن کے ادارے میں جناب مجید نظامی نے تحریر کیا کہ آج ایوب خان نے اپنے زوال کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے اور پھر وقت نے دیکھا کہ امام صحافت کا وہ قول پورا ہو کے رہا۔محترمہ فاطمہ جناح ایک اصول پسند ،اسلام پسند ،روایت پسند اور سراپا محبت خاتون تھیں ان کی زندگی کا ہر ہر لمحہ آج کی خواتین سیاسی زعما کے لئے مشعل راہ ہے۔9جولائی کو ان کی وفات ہوئی اور اپنے بھائی کے ساتھ میں آسود ہ خاک ہوئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Madr e millat Fatima Jinnah RA is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 July 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.