
نواب شاہ یونیورسٹی کی نئی داخلہ پالیسی”میرٹ کا قتل عام“
سندھ حکومت اہلیان کراچی کو کونسی”سیاسی و انتظامی مفاہمت“ کا سبق پڑھا رہی ہے
بدھ 3 فروری 2021

پیپلز پارٹی کافی عرصہ سے یہ دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ”انہوں نے صوبہ سندھ میں لسانیات کی بنیاد پر ہونے والی سیاسی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے سندھ میں بسنے والے ہر زبان بولنے والے کیلئے اپنی جماعت کے دروازے پوری طرح سے کھول دیئے ہیں اور کوئی بھی شخص چاہے وہ کسی بھی قوم یا قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو یا اردو،پنجابی،بلوچی،سرائیکی ،پشتو غرض کوئی بھی زبان بولتا ہو وہ با آسانی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو سکتا ہے“بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ”سیاسی دعویٰ“ کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے کیونکہ مفاہمت کے بادشاہ کہلائے جانے والے آصف علی زرداری نے واقعی گزشتہ کچھ برسوں سے پیپلز پارٹی سندھ میں دیگر اقوام کے ان گنت افراد کو اپنی جماعت میں اہم ترین عہدوں پر آنے کا خصوصی موقع فراہم کیا ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پیپلز پارٹی دیہی سندھ کے ساتھ ساتھ شہری سندھ کی عوام میں بھی کافی مقبول اور مضبوط ہوئی ہے اور اندرون سندھ کے اکثر شہروں میں ان انتخابی نشستوں پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار تسلسل کے ساتھ کامیاب ہو رہے ہیں جن پر ماضی میں ایم کیو ایم یا دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوا کرتے تھے لیکن حیران کن طور پر پیپلز پارٹی نے”سیاسی مفاہمت“ کی یہ پالیسی کراچی میں اختیار نہیں کی جس کی وجہ سے کراچی کی سیاست اور پیپلز پارٹی کی سیاست میں گہری خلیج پائی جاتی ہے،المیہ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کے عوام ساتھ اپنے”سیاسی تعلقات“استوار کرنے کیلئے کبھی کوئی سنجیدہ کاوش بھی نہیں کی بلکہ الٹا سندھ حکومت نے اپنی حکومتی و انتظامی پالیسیوں سے اہلیان کراچی کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ان کے بغیر بھی سندھ حکومت بہت اچھی طرح سے چل سکتی ہے ویسے تو سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے ساتھ معاندانہ انتظامی رویہ رکھنے کی کئی ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہے۔
(جاری ہے)
کراچی کی طالبات کے ساتھ گزشتہ دنوں جس طرح کے انتظامی تعصب کا اظہار کرنے والی خبر میڈیا کی زینت بنی اسے پڑھ کر اور سن کر تو دل کو جو تکلیف اور صدمہ پہنچا شاید اسے الفاظ بیان کرنا ممکن نہ ہو سکے ،خبر یہ تھی کہ ”جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نواب شاہ کی داخلہ پالیسی میں 3 کروڑ کے شہر کراچی کی طالبات کیلئے میرٹ پر ایک نشست بھی مختص نہیں ہے اور جامعہ کے جاری کردہ داخلہ اشتہار میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے علاوہ پورے سندھ کے تمام اضلاع کی ڈومیسائل کی حامل طالبات جامعہ میں داخلے کیلئے رجوع کر سکتی ہیں لیکن کراچی کا ڈومیسائل رکھنے والی طالبات جامعہ میں داخلے کی اہل نہیں ہوں گی،دلچسپ بات یہ ہے کہ جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نواب شاہ داخلے کا یہ اشتہار واٹس ایپ پر اتنی مرتبہ آگے بھیجا گیا ہے کہ اب اسے بیک وقت پانچ افراد کو بھیجنا ممکن نہیں رہا ہے اور اب اگر کوئی شخص اس اشتہار کو واٹس ایپ پر کسی کو بھیجنا چاہے تو وہ ایک وقت میں صرف ایک ہی شخص بھیج سکتا ہے۔
یادرہے کہ کراچی کی طالبات کے ساتھ یہ اس لئے بھی بہت بڑی زیادتی ہے کہ صوبہ سندھ میں خواتین کی صرف 2 ہی جامعات ہیں اور نواب شاہ کے بعد دوسری جامعہ سکھر یونیورسٹی برائے خواتین ہے لیکن اس جامعہ کی داخلہ پالیسی پورے پاکستان کیلئے یکساں ہے،واضح رہے کہ نواب شاہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی شہر ہے اور کہا جاتا ہے کہ سندھ حکومت چلائی ہی نواب شاہ کے زرداری ہاؤس سے جاتی ہے ایسے میں اگر کراچی کے باسیوں کو معلوم ہو کہ نواب شاہ شہر کی ایک جامعہ میں داخلہ لینے کے لئے ان کی بچیوں پر باقاعدہ سرکاری اشتہار کے ذریعے پابندی لگا دی گئی ہے اب آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ اس تعصب زدہ خبر کو سن کر اہلیان کراچی کے دلوں پر کیا گزری ہو گی،یاد رہے کہ جب جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نواب شاہ کی داخلہ پالیسی پر ملک بھر کے میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا میں سخت تنقید کے بعد اس داخلہ پالیسی کو کراچی کے ساتھ نا انصافی قرار دے کر میرٹ کا قتل عام ہونے کی دہائیاں دی جانے لگیں تو متعلقہ جامعہ اور سندھ حکومت کے حلقوں کی جانب سے وضاحتوں کا ناختم ہونے والا اور نامطمئن کرنے ہونے والا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔
پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نواب شاہ کے رجسٹرار ڈاکٹر خان محمد بلو کا اس خبر سے متعلق موٴقف تھا کہ”کراچی کی طالبات کی تبادلے کی بنیاد پر 10 نشستیں مختص ہیں مگر میرٹ پر ایک بھی نشست نہیں ہے اور سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی اور ڈاؤ میڈیکل کی 5،5 طالبات اگر چاہیں تو یہاں تبادلے کی بنیاد پر آسکتی ہیں کیونکہ کراچی کی طالبات کو میرٹ کی بنیاد پر نشستیں دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے بظاہر ہم محکمہ بورڈز و جامعات کے ماتحت ہیں مگر ہمیں داخلہ پالیسی محکمہ صحت دیتا ہے“اس وضاحت کا سادہ سا مطلب یہ ہی لیا جا سکتا ہے اگر کراچی کی کسی طالبہ کو جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نواب شاہ میں پڑھنے کا شوق ہے تو اسے یہاں کی جامعہ میں پڑھنے والی طالبہ کی منت،ترلے کرنا ہوں گے اگر اسے رحم آگیا تو تبادلہ کی بنیاد پر کراچی کی طالبہ کو جامعہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنس برائے خواتین نواب شاہ میں پڑھنے کا موقع مل سکتا ہے المیہ ملاحظہ فائدہ پھر بھی نواب شاہ کی جامعہ میں پڑھنے والی طالبہ کا ہی ہو گا۔
اسے آپ انتظامی و سیاسی تعصب کی بدترین مثال بھی کہہ سکتے ہیں،دوسری جانب لطیفہ ملاحظہ ہو کر داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کراچی میں اندرون سندھ کے طلبہ کیلئے 50 فیصد اور شہری علاقوں کیلئے الگ سے 50 فیصد نشستیں مختص ہیں نیز جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کی اندرون سندھ کی 46 اور ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی میں اندرون سندھ کی 23 نشستیں مختص ہیں صرف یہ ہی نہیں این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی اندرون سندھ کے تعلیمی بورڈز کی بنیاد پر نشستیں مختص کی گئی ہیں جبکہ جامعہ کراچی میں بھی اندرون سندھ کے طلبہ کیلئے خصوصی اضافی نشستیں مختص کی گئی ہیں اس کے علاوہ جامعہ کراچی کے 21 ٹیسٹ والے شعبوں میں پورے سندھ کے طلبہ کیلئے داخلے کھلے ہیں تاہم سب سے دلچسپ، انوکھی اور حیرت انگیز صورتحال لیاری میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی کی ہے جہاں 50 فیصد نشستیں کراچی کیلئے اور باقی 50 فیصد اندرون سندھ کے طلبہ و طالبات کیلئے مختص کرکے اہلیان کراچی کو خدا جانے سندھ حکومت کی جانب کونسی”سیاسی و انتظامی مفاہمت“کا سبق پڑھایا جا رہا ہے،ہم تو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں اگر آپ کو سمجھ میں آجائے تو اپنے تک ہی رکھیے گا کسی کو مت بتائیے گا کیونکہ سچ بات کرنے سے صوبہ سندھ میں جاری سیاست کے مفاہمتی عمل کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
Nawab Shah University Ki Nayi Dakhla Policy is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 03 February 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.