نظام پولیس میں اصلاحات…!

پولیس اصلاحات کے ساتھ ساتھ دور جدید کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس فورس کے مسائل کو بھی حل کیا جائے ، انہیں جرائم کی روک تھام اور جرائم پیشہ افراد سے مقابلے کے لئے جدید ترین اسلحہ، اورگاڑیاں دی جائے

Rana AIJAZ HUSSAIN Chauhan رانا اعجاز حسین چوہان ہفتہ 4 مئی 2019

nizaam e police mein islahat
 یہ حقیقت ہے کہ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا ذمہ دار پولیس کا ادارہ ماضی میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ، برسراقتدار سیاسی شخصیات اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے جس کی وجہ سے پولیس عوام کو انصاف اور ریلیف فراہم کر نے میں اپنے حقیقی مقصد سے دور ہوتی چلی گئی ۔ اور یہ صورتحال نہ صرف محکمہ پولیس کے لیے بدنامی باعث بنی بلکہ امن و امان کے قیام میں محکمہ پولیس کی عملداری کمزور رہی، اور بااثر جرائم پیشہ عناصر قانون کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے رہے۔

 
ان گھمبیر حالات میں عوامی حلقوں کی جانب سے پولیس نظام میں اصلاحات، اور بار بار پولیس وردی بدلنے کی بجائے لہجے بدلنے ، اور پولیس کا برتاؤ خوشگوار بنانے کی ضرورت پر زور دیاجاتا رہا، اور مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ ہمیں ایسے غیر سیاسی و غیر جانبدار پولیس نظام کی ضرورت ہے جو کہ عدم تحفظ کا شکار ہوئے بغیر صرف قانون کی بالادستی کو مقدم سمجھتے ہوئے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کر سکے۔

(جاری ہے)

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اعلیٰ پولیس افسران نے اپنی ساری توجہ نظام پولیس میں اصلاحات ، اور عوام کے پولیس پر اعتماد کو بحال کرنے پر مرکوز کررکھی ہے،
 آئی جی پنجاب عارف نواز خان کی تعیناتی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جبکہ پولیس کے رویوں سے متعلق عوام کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے ،نظام پولیس میں موثر اصلاحات اور ویلفیئر کے لئے پولیس آئی جیز، ریٹائرڈ پولیس آئی جیز اور ایڈیشنل آئی جیز پر مشتمل ایسوسی ایشن آف فارمر انسپکٹر جنرل پولیس (اے ایف آئی جی پی ) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کا مقصدپولیس کی جدید خطوط پر اصلاحات، پاکستان بھر میں پولیس کی پیشہ ورانہ ترقی کے لئے اہم مشاورت اور خدمات فراہم کرنا، پولیس کو ہرقسم کے سیاسی دباؤ سے بالا تر اور منصفانہ طور پر خدمات کی آزادی ، رویوں میں بہتری ، پولیس اور پبلک میں مثالی تعلقات شامل ہیں، اور اس نیک مقصد کے لیے (اے ایف آئی جی پی ) کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔

جبکہ ایڈیشنل آئی جی ٹریننگ پنجاب جناب طارق مسعود یٰسین اپنی پیشہ وارانہ صلاحتیں بروئے کار لاکر پولیس نظام میں بہتری، رویوں میں تبدیلی اور پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی تربیت کے لیے عملی طور پر کوشاں ہیں ۔انہوں نے تین سال قبل ملتان تعیناتی کے دوران خدمت کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے ریجنل پولیس ہیڈ کورٹر ملتان میں پہلا پول کام آفس تعمیر کروایا جوکہ دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔

اس آفس سے پورے ریجن کے پولیس اسٹیشن کو بزریعہ سی سی ٹی وی لنک کیا گیا ، جہاں سے پولیس اسٹیشن میں درج ہونے والی ایف آئی آر ، ان کی تفتیش، مقدمات کی پیش رفت ، ریکارڈ اور پولیس اسٹیشنز کی سرگرمیوں کو دیکھا جاسکتا تھا ۔ جبکہ یہاں نصب سکرین پر پولیس کے زیر استعمال گاڑیوں کی لوکیشن اور مختلف مقامات کی سیکورٹی صورتحال کو بھی مانیٹر کیا جاسکتا تھا ۔

 اس جدید پول کام آفس میں حصول انصاف کے لئے آنے والے سائلیں کے لئے لکڑی کے روایتی بنچوں کی بجائے لگژری صوفے رکھے گئے، اور خواتین کے لئے خواتین سٹاف پر مشتمل علیحدہ حصہ بنایا گیا تاکہ خواتین بلاجھجک اپنے مسائل کے حل کے لئے استفادہ کرسکیں۔ اس طرح طارق مسعود یٰسین کی عمدہ کاوش سے قائم یہ جدید پولکام آفس پورے ملک کے لیے مثال بنا اور اس آفس کو دیکھتے اور اس کی کاپی کرتے ہوئے ملک بھر میں سنٹرل مانیٹرنگ روم، آن لائن ایف آئی آر، اور تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنائے جارہے ہیں۔

 
طارق مسعودیٰسین صاحب ان دنوں ایڈیشنل آئی جی ٹریننگ پنجاب تعینات ہیں، اور نظام پولیس میں بہتری کو اپنا فرض عین سمجھتے ہوئے پولیس ٹریننگ سکول و کالجز میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں اور تربیتی کورس پر آنے والے پولیس افسران کے رویوں میں تبدیلی، اور ان کو حقیقی طور پر عوام کا محافظ اور خدمت گاربنانے میں مصروف عمل ہیں۔ اور اب پولیس ٹریننگ یونیورسٹی کے تصور پر کام کر رہے ہیں جہاں پولیس افسران کو رویوں میں تبدیلی کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے جرم کی تحقیقات کی صلاحیت، دور جدید کے جرائم کے سدباب کے لیے جدید تربیت، کمیونٹی پولیسنگ ، سماجی و اخلاقی پہلووٴں، دیانت و ایمانداری کی تربیت دے کر وطن کو جرائم سے پاک اور امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جتنی کردار سازی کی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔ کیونکہ نفسانی خواہشات نے جھوٹ و سچ ، نیکی و بدی اور اچھائی و برائی کو اپنے جائز و ناجائز مقاصدکے سامنے پس پشت ڈال دیا ہے۔ایسے حالات میں ہم پولیس کی تربیت اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ اور پولیس کانسٹیبل سے لیکر بڑے افسروں تک کی تربیتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے، ” علم اور زندگی“ کے عنوان سلیبس مرتب کیا گیاہے جس میں شامل مضامین ان کے رویوں میں تبدیلی ، معاشرتی زندگی کے تمام امور میں بنیادی دینی و دنیاوی علوم کا احاطہ کرتے ہیں، اور شخصیت میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے ایک پریکٹیکل فریم ورک مہیا کرتے ہیں۔

اس نظام کے تحت گزشتہ دنوں پولیس ٹریننگ کالج لاہور سے9 ماہ کا کورس مکمل کرکے پاسنگ آؤٹ ہونے والے ٹریفک اہلکاروں کی تربیت کا معیار اور نکھری ہوئی شخصیت دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا اور حقیقی خوشی حاصل ہوئی“۔
 بلاشبہ طارق مسعود یٰسین انسانیت سے محبت رکھنے والے انتہائی شفیق آفیسر ہیں اپنی بصیرت سے مفلوک الحال لوگوں کی بے بسی کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کے لئے ہمہ وقت کاوشوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔

پولیس اصلاحات کے ساتھ ساتھ دور جدید کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس فورس کے مسائل کو بھی حل کیا جائے ، انہیں جرائم کی روک تھام اور جرائم پیشہ افراد سے مقابلے کے لئے جدید ترین اسلحہ، اورگاڑیاں دی جائے۔صد افسوس کہ ماضی میں ہم پولیس فورس کی جدید تربیت کی بجائے متبادل فورسز بناتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی مجاہد فورس تو کبھی محافظ ، ایلیٹ فورس اور پھر پٹرولنگ و ڈولفن فورس بنائی گئی لیکن جب تک پولیس کو جدید ٹریننگ، بہترین اسلحہ، جدید سواریاں نہیں دی جاتی اور ان کی نفری میں اضافہ نہیں کیا جاتا ان سے بہترین کارکردگی نہیں لی جاسکتی ۔

 ان سطور میں میں ارباب اختیار سے عرض کرنا چاہوں گا کہ محکمہ پولیس کو مکمل غیر سیاسی بنایا جائے اورپولیس اہلکاروں کے کام کے اوقات میں بھی بہتری لائی جائے، انہیں آٹھ گھنٹوں کی شفٹ اور ہفتہ وار چھٹی، اوربوقت ڈیوٹی کھانے کی فراہمی اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ یہ بلا جھجک دیانت داری سے خدمات سرانجام دے سکیں۔ افسران بالا کی جانب سے نظام پولیس میں بہتری کی سنجیدہ کوششوں سے عوام کو سہولیات میسر آرہی ہیں، اور جرائم کا گراف بھی کم ہوا ہے۔

مزید یہ کہ پولیس میں جہاں چند ایک کالی بھیڑیں باقی ہیں وہاں عوام کی خدمت کا جذبہ اور خالصتاً رزق حلال پر یقین رکھنے والے دیانتدار لوگ بھی موجود ہیں۔ کروڑوں رحمتیں ہوں ان پولیس والوں پر جو بدترین حالات میں بھی راہ مستقیم پر چلتے ہوئے اپنے بچوں کی رگوں میں رزق حرام نہیں اترنے دیتے، کہتے ہیں کہ حرام خون سے ایک نسل خراب ہوتی ہے لیکن حرام رزق سے سات نسلیں خراب ہوتی ہیں۔ دعاگو ہوں کہ نظام پولیس میں بہتری کے لیے جدوجہد کرنے والے افسران کو اللہ تعالیٰ ان کے نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے ، اور ان کے عزم اور صلاحیتوں میں مزید اضافہ فرمائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

nizaam e police mein islahat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 May 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.