فلسطین پر صہیونی لشکر کشی اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی

دنیا کے 97 طاقتور ترین ممالک اسرائیل کو اپنا بغل بچہ تصور کرتے ہیں

منگل 15 جون 2021

Palestine Per Sehyoni Lashkar Kashi
راؤ محمد شاہد اقبال
فلسطین میں اسرائیلی استبداد کے ہاتھوں گزشتہ چند ہفتوں سے فلسطینیوں پر بہیمانہ ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جس نے صرف اہل مسلم ہی نہیں بلکہ ہر درد دل رکھنے والے انسان کو مضطرب اور مستقل بے چینی میں مبتلا کر رکھا ہے۔دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلمان اقوام سراپا احتجاج ہیں لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

مسلمانوں کی بے بسی کا ایسا منظر آسمان کائنات نے کم کم ہی ملاحظہ کیا ہے کہ جب دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں کا ناحق خون پانی کی طرح بہہ رہا ہو مگر مسلمان ان کی عسکری امداد تو ایک طرف مالی و طبی امداد بھی نہ کر سکتے ہوں ایسے میں اگر مسلم ممالک میں رہنے والی عوام اپنے حکمرانوں سے فلسطینیوں کو صہیونی افواج کے پنجہ استبداد سے بچانے کے لئے اسرائیل پر حملے کا مطالبہ کریں تو ان کی یہ مانگ اور خواہش ان کے اذہان اور قلوب میں پنپنے والے جذبات کی بالکل درست ترجمانی محسوس ہوتی ہے لیکن اگر ترکی،ایران اور پاکستان میں سے کسی بھی ایک ملک کا حکمران واقعی اسرائیل پر اپنی پوری عسکری صلاحیت کے ساتھ حملہ آور ہو جائے تو اس کے نتیجے میں کیا فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا خواب پورا ہو جائے گا؟یہ وہ سوال ہے جس کا حتمی جواب اسرائیل پر حملے سے قبل تلاش کرنا ہو گا ناکہ بعد میں عوام کے ایک حلقے کے ذہن میں یہ رائے پوری طرح راسخ ہو چکی ہے یا چند عاقبت نااندیش رہنماؤں کی جانب سے کر دی گئی ہے کہ اسرائیل چند لاکھ نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جسے کسی بھی مسلمان ملک کی فوج چند گھنٹوں کی فضائی اور زمینی کارروائی کے بعد باآسانی فتح کرکے فلسطینیوں کی جھولی میں ڈال سکتی ہے یہ وہ مغالطہ ہے جو سننے میں تو ہمارے کانوں کو بھی بہت بھلا لگتا ہے لیکن جب اس نقطہ نظر کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو منکشف ہوتا ہے کہ اس رائے جیسا بودا سیاسی عقیدہ تو ہو ہی نہیں سکتا بلاشبہ اسرائیل 90 لاکھ آبادی والا ایک مختصر سے رقبہ پر قابض دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہی ہے جس میں یہودیوں کی تعداد 74 فیصد ہے لیکن اسرائیل کی اصل عسکری طاقت اور قوت اسرائیلی افواج یا مقبوضہ سرزمین نہیں ہے بلکہ ان کی اصل قوت دنیا کے وہ 97 طاقتور ترین ممالک ہیں جو اسرائیل کو اپنا بغل بچہ سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)


اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ممالک میں امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان اور یورپ کے تمام قابل ذکر ممالک سرفہرست ہیں جن کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ اسرائیل پر حملہ کرنے والے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا کے علاوہ کچھ نہیں یعنی پاکستان کو تو آپ تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف ہی رکھ دیں لیکن اگر ترکی کے صدر طیب اردوان اور ایران کے صدر حسن روحانی میں سے بھی کوئی ایک مسلم رہنماء اپنی دینی حمیت کے تحفظ اور فلسطینی سرزمین سے یہودیوں کو بے دخل کرنے کے جذبہ سے مغلوب ہو کر اسرائیل پر لشکرکشی کر دے تو اگلے چند ہی گھنٹوں میں دنیا کے 97 طاقتور ترین ممالک اس ملک پر بھیڑیوں کی طرح چاروں طرف سے حملہ آور ہو جائیں گے جس کا آخری نتیجہ یہ برآمد ہو گا کہ ابھی تو اسرائیلی بربریت کا صرف 47 لاکھ فلسطینی ہی شکار ہیں لیکن بعد ازاں اس میں ترکی کے 8 کروڑ اور ایران کے 9 کروڑ معصوم مسلمانوں کا بھی اضافہ ہو جائے گا اور یوں اسلام مخالف قوتوں کو ظلم و ستم کی مشق کرنے کے لئے مسلم خون کچھ مزیدار زانی سے دستیاب ہو جائے گا۔


ترکی اور ایران حزب اللہ کی خفیہ امداد تو ضرور کرتے ہیں لیکن اسرائیل پر اعلانیہ حملہ کرنے سے حتی المقدور اجتناب برتنے کی غیر مقبول مگر دانشمندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں یہاں بعض اہل درد افراد،ترکی اور ایران کو ان کی مذکورہ بالا مجبوریوں کی رعایت دیتے ہوئے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان سے مطالبہ کر سکتے ہیں اور یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر تو پورے شدومد کے ساتھ مختلف پوسٹوں میں پاکستانی ارباب اقتدار سے سوال کیا بھی جا رہا ہے کہ ”ایٹم بم آخر کس لئے بنایا تھا؟کیا ہمارا ایٹم بم اسرائیل کو نیست و نابود کرکے فلسطینیوں کو یہودیوں کے ظلم و جبر سے نجات نہیں دلا سکتا؟“ایسی یا اس جیسی دیگر جذباتی پوسٹیں پڑھنے کے بعد اب تو ہماری سادہ لوح عوام کی اکثریت بھی سوچنے لگی ہے کہ آخر پاکستان اپنے سینکڑوں ایٹم بموں سے کوئی ایک بڑا سا ایٹم بم تل ابیب کا نشانہ لے کر چلا کیوں نہیں دیتا،چلیں ایک لمحہ کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنے ایک سب سے چھوٹے ایٹم بم کو غوری یا غزنوی میزائل میں بیٹھا کر اسرائیلی دارلحکومت کی جانب روانہ کر دیتی ہے اور وہ صحیح سلامت مطلوبہ ہدف پر کامیابی کے ساتھ سجدہ ریز بھی ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟۔


شاید ایٹم بم اسرائیلی سرزمین پر گرانے کا مشورہ دینے والوں نے اس بارے میں نہ سوچا ہو تو ان کی معلومات میں تصیح کے لئے ہم بتائے دیتے ہیں کہ ہمارا پھینکا گیا ایک چھوٹا سا ایٹم بم بھی تمام اسرائیل پوری فلسطینی ریاست آدھے سے زیادہ عرب ممالک اور خاکم بدہن بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا کیونکہ ایٹم بم ضرور ہمارے پاس ہے لیکن ایٹم بم کی ہولناک تباہی کو محدود،کم یا زیادہ کرنے کی سائنس دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس موجود نہیں ہے لہٰذا ہمارا غلطی یا مرضی سے چلایا گیا ایٹم بم یہودیوں اور فلسطینیوں کو الگ الگ شناخت کرنے کی ”تکنیکی صلاحیت“ سے یکسر محروم ہونے کے باعث پورے خطہ عرب پر ہی ایک ہولناک قہر بن کر اترے گا یہ تو وہ مثال ہوئی کہ اگر 4 سے 5 اغواء کاروں نے کسی عمارت میں 200 یا 300 بے گناہ و معصوم افراد کو یرغمال بنایا ہوا ہے تو ریاست یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرنے کا مشکل اور صبر آزما راستہ تلاش کرنے کے بجائے مٹھی بھر اغواء کاروں کا قصہ تمام کرنے کے لئے پوری عمارت کو مع یرغمالیوں کے بم سے اڑا کر اگلے روز بیان جاری کر دے کہ ”دیکھیں جی!ہم نے معصوم افراد کو اغواء کرنے والوں کو سزا دے کر ریاست کا قیمتی وقت اغواء کاروں سے مذاکرات میں ضائع ہونے سے بچا لیا ہے“۔


پاکستان کے ساتھ اسرائیل یا فلسطین کی سرحدیں نہیں ملتی اس لئے لشکرکشی کے لئے زمینی یا فضائی کارروائی کرنا ہمارے لئے صرف کارمحال ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے،ہاں !اگر اسرائیل کے ساتھ متصل عرب ممالک جنگ کی بساط بچھا لیں تو یقینا اس میں پاکستان کی ایک اہم مہرہ ضرور ثابت ہو سکتا ہے مگر اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر عرب ممالک کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود اسرائیل کو عبرتناک ”عسکری سبق“ سکھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟جبکہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان بھی فقط سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک میں کئے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی عرب حکمران اور عوام کو بزدلی،کم ہمتی اور ایمان فروشی کے صبح و شام طعنے دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو عرب حکمران اور نہ ہی عرب عوام فلسطینیوں کے حق میں ہلکی سی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہیں دکھائی دیتے ہیں۔

کیا اہل عرب! واقعی اتنے سخت دل اور کھٹور ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنے پڑوس میں چیختے چلاتے مظلوم فلسطینیوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی نہیں دیتیں؟
سچ تو یہ ہے کہ عربوں کا چونکہ فلسطینیوں کے ساتھ خون اور زمین کا رشتہ بھی ہے اس لئے یقینا انہیں فلسطینیوں کے دکھ اور درد پر ہم سے زیادہ تکلیف ہوتی ہو گی،واضح رہے کہ اگر عربوں کو سرزمین فلسطین کی پرواہ نہ ہوتی تو وہ آخر کیوں اسرائیل کے خلاف ایک بار نہیں بلکہ 3 بار جنگ کا میدان سجاتے،جی ہاں!عرب فلسطینیوں کی محبت میں 3 بار پراکسی یا خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ جنگ کر چکے ہیں لیکن ہر بار اسرائیل اور اس کے اتحادی فقط اس لئے کامیاب و کامران رہے کہ عرب ممالک عسکری میدان میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے تھے اور یوں اسرائیل فاتح اور عرب مفتوح قرار پائے نیز عرب ممالک کے ہر حکمران کو ہم سے زیادہ اچھی طرح سے ادراک ہے کہ فلسطین اور یروشلم کے بعد اسرائیل کے قدم ان کی سرزمین پر قابض ہونے کے لئے ہی بڑھیں گے لیکن اہل عرب ماضی کی 3 جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں اتنے زخم خورہ اور مفلوج ہو چکے ہیں کہ ان میں اب اسرائیل کا سامنا کرنا تو کیا اسرائیل کو خشمگیں نگاہ سے دیکھنے کی بھی ہمت باقی نہیں رہی ہے اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو منکشف ہو گا کہ عرب ممالک اور فلسطین یکساں طور پر اسرائیل کے محکوم ہیں یعنی فلسطینی جسمانی طور پر اسرائیلیوں کی دسترس میں ہیں لیکن ان کے ذہن مکمل طور پر آزاد ہیں جبکہ عرب ممالک ذہنی طور پر اسرائیل کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہو چکے ہیں بظاہر ان کے جسم اور علاقے آزاد دکھائی دیتے ہیں اب یہاں اہم ترین سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ عرب ممالک ہوں یا فلسطین انہیں اسرائیل کے پنجہ استبداد سے رہائی کون دلائے گا؟یا مسئلہ فلسطین کا مبنی برحقائق ممکنہ حل کیا ہو سکتا ہے؟اور اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کی سب سے موٴثر حکمت عملی کیا ہونی چاہئے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Palestine Per Sehyoni Lashkar Kashi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 June 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.