پیپلز پارٹی سے غیراعلانیہ معاہدہ ‘ مسلم لیگ ن سندھ میں غیر فعال

اندرون سندھ پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے والے مایوس ہو کر پی پی میں واپس (ن) لیگ نے متحدہ قومی موومنٹ کا متبادل بننے کا سنہری موقع گنوادیا

بدھ 15 فروری 2017

PPP Se Ghair Elania Wada PMLN Sindh Main Ghair Faal
اسرار بخاری :
سنیئر صحافی اور تجزیہ نگار جناب مقصود یوسفی نے جوکراچی میں مقیم ہونے کے باعث سندھ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ، بہت اہم سوال اٹھایا ہے کہ کراچی حیدرآباد موٹروے کا افتتاح کرنے سے قبل سندھ میں ایک متحرک گورنر کا تقرر کر کے صوبے میں (ن) لیگ کی موجودگی کا احساس دلایا ہے ۔ یہ اقدام (ن) لیگ کی جانب سے سندھ میں پیش بندی کے طور پر لیا گیا ہے یا پھر آنے والے انتخابات کیلئے پیش قدمی کی گئی ہے ۔

اس سوال کا جواب سندھ میں (ن ) لیگ کی سیاسی فعالیت سے لگایا جاسکتا ہے جوجناب شاہد اللہ خان ، جناب نہال ہاشمی اور جانب سلیم ضیا جیسے دیرینہ تجربہ کار اور مخلص رہنماؤں کی موجودگی کے باوجود کم کم ہی نظرآتی ہے تاہم اس سلسلے میں ان رہنماؤں پر انگلی اس لئے نہیں اٹھائی جاسکتی کہ پارٹی کی مرکزی قیادت میں اس حوالے سے فکر مندی دوردور تک نظرنہیں آرہی ورنہ اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کا موثر مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھنے والے مگسی اور شیراز کی خاندانوں کا بے اعتنائی کے اجلاس میں مبتلا ہوکر واپس پیپلز پارٹی میں جانا، عبدالحکیم بلوچ کا (ن ) لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر وفاق میں وزیر مملکت ہوتے ہوئے بے اختیاری کے احساس کا شکار ہو کر استعفیٰ دیکر دوبارہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کرایم این اے منتخب ہونا۔

(جاری ہے)

ممتاز بھٹو کااپنی جماعت سندھ نیشنل فرنٹ کو (ن) لیگ میں ضم کرکے علیحدہ ہو کر دوبارہ اسے بحال کرنے کی کوشش کرنا، غلام مرتضیٰ جتوئی اگرچہ (ن ) لیگ کے اقتدار کاحصہ نہیں مگر ان کی پارٹی کااختیارات کیلئے مسلسل دہائیاں دیتے نظر آتے ان جیسے واقعات سے جن کی جناب مقصود یوسفی نے نشاندہی اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے کافی نہیں کہ (ن) لیگ کی مرکزی قیادت سندھ میں اپنی سیاسی جگہ بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی ۔

ان سطور میں اس حقیقت کی پہلے ہی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ شاید میثاق جمہوریت کے تحت سندھ تمہارا ، پنجاب ہمارا “ کے غیر اعلانیہ معاہدہ نے بھی شاید (ن ) لیگ کے سندھ میں پارٹی پھیلانے کی راہ روک رکھی ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو اگرچہ قومی لیڈر تھے لیکن ان کے اندر بکل مارے بیٹھا سندھی قومی سیاسی دھارے سے ہم آہنگ نہیں ہوسکا۔ 1973ء میں ایک معاہدہ کے تحت انہوں نے اردو سپیکنگ کیلئے سندھ کے وزیر اعلیٰ بننے کی راہ روک دی اور ہمیشہ کیلئے سندھی بولنے والوں کیلئے راستہ ہموار کردیا۔

وزیراعظم نواز شریف کے پاس یہ موقع تھا اور وہ 1973ء کے اس غیر اعلانیہ معاہدہ کے پابند بھی نہیں تھے وہ کسی سندھی بولنے والے رہنما کو گورنرمقرر کر کے اس معاہدہ کوبے اثر بنا کر اردو، پنجابی یاپشتوزبان بولنے والے کیلئے وزیراعلیٰ بننے کی راہ ہموار کرسکتے تھے لیکن شاید وہ اس مرحلہ پر پیپلزپارٹی سے بگاڑ نہیں چاہتے ۔ پیپلز پارٹی نے بھی بہت نازک لمحات میں (ن) لیگ کو سہارا دیا ہے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے دوران اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کے موقع پر ، پانامہ کیس میں اعتزاز احسن جیسے وکیل کو اجازت نہ دیکر اور ڈان لیکس کے معاملہ میں زیادہ سخت رویہ اختیار نہ کرکے (ن ) لیگ کو سیاسی طور پر زیربار کیا ہے بغور جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں بلاول کی سرکردگی میں پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں کا مقصد (ن ) لیگ کو نقصان پہنچانے سے زیادہ تحریک انصاف کے بڑھتے قدم روکنا ہے ۔


ادھر سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج ورانی نے گورنر سعید الزماں صدیقی کی وفات کے بعد آئین کے مطابق نئے گورنر کی تقرری تک قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالا انہوں نے اس حیثیت میں حاصل تمام اختیارات کو بروئے کار لاناشروع کردیا جوشاید وفاقی حکومت کی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں بہرحال زبیر عمر کایہ منصب سنبھالنے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے ۔

پارلیمانی نظام میں صد مملکت کی طرح گورنر کو بھی محدود اور متعینہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں تاہم سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو جو بھی اختیارات حاصل تھے ان کے بل بوتے پرایم کیو ایم کی خوب سرپرستی کی کیا گورنر زبیر عمر بھی سندھ میں (ن ) لیگ کے پھلنے پھولنے میں کوئی کردار ادا کرسکیں گے یہ بہر حال سوالیہ نشان ہے ۔ کیا اسے غلطی کا احساس سمجھاجائے کہ سابق وزیراعلیٰ اور سنیئر رہنماسید غوث علی شاہ اور سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کو واپس لانے کیلئے انہیں منانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

اس سلسلے میں وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ۔ وہ بہت سے لوگ جودور ابتلا میں ثابت قدم رہے ان کے حوالے سے بھی پارٹی کی صفوں میں بے اعتنائی کے شکووں کی گونج سنی جاسکتی ہے شاید اب کے ازالے کی کوششیں کی جارہی ہیں بیگم نجمہ حمید کی بھانجی مریم اور نگزیب کو اطلاعات ونشریات کی وزیر مملکت بنا کر تلافی کی کوشش کی گئی ہے مگر خود بیگم ، نجمہ حمید ، بیگم عشرت اشراف اور بیگم تہمینہ دولتانہ ، پیر صابر شاہ ، چودھری صفدر رحمن اور ایسے دوسرے پارٹی میں پہلے کی طرح متحرک کیوں کیا گیاان کے سیاسی تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی یہ وہ سوالات ہیں جن کی باز گشت خود پارٹی کی صفوں میں سنی جاسکتی ہے بات سندھ میں (ن) لیگ کے امکانات سے سے چلی تھی (ن ) لیگ کیلئے متحدہ قومی موومنٹ کامتبادل بننے کا بہترین موقع تھا جو پیپلزپارٹی کی خوشنودی کی خاطر گنوادیا گیا۔

ایم کیوایم میں ان کی بھاری اکثریت ہے جن کے بڑوں نے پاکستان بنانے میں اہم کردار مسلم لیگ کے پرچم تلے قائداعظم کی عظیم الشان قیادت میں ادا کیا تھا۔ اس لئے مسلم لیگ سے ان کاایک غیر محسوس جذباتی تعلق ہے لیکن (ن) لیگ کی قیادت اس کا احساس نہیں کرسکی یا پیپلزپارٹی کا راستی کشادہ رکھنا تھا کیونکہ اگر (ن ) لیگ ایم کیوایم کا متبادل بنی تو صرف اردو سپیکنگ کی جماعت نہ بنتی بلکہ اندرون سندھ بھی اس کیلئے سیاسی جڑیں پھیلانے کے راستے ہموار ہوسکتے تھے ۔ لیکن اگر ایسا ہونا تو یہ بلاخوف تردید اندرون سندھ پیپلزپارٹی کیلئے خطرے کی گھنٹی بن سکتا تھا جس پر وہ بلا شرکت غیرے سیاسی اجارہ داری کی آرزو مند ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

PPP Se Ghair Elania Wada PMLN Sindh Main Ghair Faal is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 February 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.