سرُو والا مقبرہ

یہ مقبرہ نواب زکریا خان کی بہن اور نواب عبدالصمد خان کی دوسری زوجہ بیگم شرف النساء المعروف شریفہ بیگم کا جائے مدفن ہے۔ زکریا خان مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں لاہور کا صوبے دار یا گورنر تھا

Dr Syed Muhammad Azeem Shah Bukhari ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری بدھ 9 دسمبر 2020

Sarru Wala Maqbara
لاہور کے مشہور مؤرخ منشی کنہیا لال نے تاریخ لاہور کی بابت ایک خستہ حال مقبرے کی جانب انگریز حکومت  کی توجہ مبزول کرائی جس پر گورنر چارلس ایمفرسٹن ایچی سن کے عہدِ حکومت میں 1881ء میں کام شروع ہوا اور ایک سال کی قلیل مدت بعد یہ 1882ء میں دوبارہ بن کر تیار ہوا۔
یہ سرو والا مقبرہ تھا جو اشبیلیہ کے جیرالڈا مینار کی مانند چوکور ہے۔


لاہور میں جی ٹی روڈ کے عین اوپر، شالامار باغ کے پاس دائی انگہ کا مقبرہ (گلابی باغ) واقع ہے۔ اس مقبرے کے عقب میں 200 میٹرشمال میں سرو والا مقبرہ واقع ہے جو غالباً اس لیئے ''سرو والا'' کہلاتا ہے کہ اسکی چاروں دیواروں کو رنگین کاشی کی ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے جن پر سرسبز و شاداب سرو کے درخت اور گل بوٹے اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

  سرو والا مقبرہ اندرون بیگم پورہ کی آبادی میں گھرا ہوا ہے۔


یہ مقبرہ نواب زکریا خان کی بہن اور نواب عبدالصمد خان کی دوسری زوجہ بیگم شرف النساء المعروف شریفہ بیگم کا جائے مدفن ہے۔ زکریا خان مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا کے دور میں لاہور کا صوبے دار یا گورنر تھا۔ نواب زکریا خان کا خاندان بیگم پورہ، لاہور میں مقیم تھا اور یہ علاقہ بھی نواب زکریا خان کی والدہ ''بیگم جان'' کے نام کی نسبت سے بیگم پورہ کے نام سے مشہور ہے۔


کہتے ہیں کہ  یہ مقبرہ شرف النساء بیگم نے اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروایا تھا۔ شرف النساء بیگم کا یہ زوزانہ کا معمول تھا کہ وہ نماز و تلاوت کے لیئے یہاں کا رُخ کرتی تھیں۔ چونکہ یہ بلند عمارت بغیر کسی زینے کے تعمیر کی گئی تھی لہٰذا وہ چوبی زینہ رکھ کر اوپر جاتیں اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہتیں۔

تلاوتِ قرآن کریم کے بعد وہ محل چلی جاتیں اور قرآن کریم اور اپنی مرصع تلوار یہیں چھوڑ جاتیں۔
پھر جب بیگم شرف النساء کا انتقال ہوا تو آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو اسی بے زینہ عمارت میں دفنایا گیا اور آپ کے زیرِ استعمال  قرآنِ کریم اور تلوار کو بھی اِسی مقبرے کی بالائی منزل میں محفوظ کر دیا گیا۔ اس وصیت کے پیچھے یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ بیگم صاحبہ چاہتی تھیں کہ ان کی قبر مردوں کی نظر سے محفوظ رہے تبھی اپنی زندگی میں بھی آپ نے اس عمارت کو بے زینہ ہی رہنے دیا۔


مقبرے کی ساخت اور طرزِ تعمیر کی بات کریں تو قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اِس مقبرہ کی بنا 1735ء کے بعد کے کسی سال میں رکھی گئی ہے جب لاہور پر اُس وقت نواب زکریا خان کی حکومت تھی۔ اگر اس مقبرے کا تقابل مغلیہ عہد میں تعمیر ہونے والے دیگر مقبروں اور عمارتوں سے کریں تو یہ اپنے آپ میں انوکھا اور منفرد دکھائی دیتا ہے۔  برصغیر میں سرو والا مقبرہ کی مانند دوسرا کوئی مقبرہ موجود نہیں کیونکہ مغلیہ طرز تعمیر کے تمام مقابر کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ قبر کا تعویز عموماً بالائی سطح پر ہوتا ہے جبکہ اصل قبراس کے نیچے تہہ خانے میں ہوتی ہے لیکن سرو والا مقبرہ اس کے برعکس ہے، اس دو منزلہ عمارت میں  قبر بالائی منزل پر واقع ہے۔


اس عمارت میں مغلیہ طرز تعمیر اور ہند اسلامی طرز تعمیر بہترین آمیزش دیکھی جا سکتی ہے۔ مقبرہ کہلانے والی اس عمارت کا نہ ہی کوئی وسیع و عریض گول گنبد ہے اور نہ ہی لمبی لمبی محرابیں۔
کیتھرائن بیلنشرڈ آشر (انگریز مؤرخ) کے مطابق یہ مقبرہ عہد اورنگزیب عالمگیر کے محض چند سالوں کے بعد تعمیر کیے جانے والے مقابر میں اب تک کا محفوظ شدہ مقبرہ ہے اور یہ اپنی نوعیت میں منفرد ہے جس کی انتہائے بلندی پر اہرام نما تکونا کم بلند اور پست گنبد واقع ہے ۔


مقبرے کی عمارت مربع نما ہے جو مکمل چور پہ پختہ ہے جس کی تعمیر سُرخ رنگ کی چھوٹی اینٹ سے کی گئی ہے۔ عمارت کی دو منزلیں ہیں جن میں پہلی منزل زمین سے دو قد آدم بلند ہے اور اسکی لمبائی قریباً 15 سے 16 فٹ ہے جس پر کسی قسم کا کوئی بناوٹی کام موجود نہیں ہے ( شاید پہلے کیا گیا ہو لیکن حال میں موجود نہیں ہے)۔ اس سے اوپر کی منزل قریباً 22 فٹ بلند ہے جس کی چاروں دیواروں پر سرو کے سبز کانسی کار درخت منقش بنائے گئے ہیں۔

دو سرو کے درختوں کے بیچ ایک چھوٹا پھول بنایا گیا ہے جو سبز، فیروزی، زرد اور نیلے رنگ کی کاشی ٹائیلوں سے بنا ہوا ہے۔
دوسری منزل پر ہی شرف النساء بیگم کی قبر موجود ہے جو مغربی دروازے سے دور سے دیکھنے پر نظر آتی ہے۔ اگر زینے کے ساتھ دوسری منزل میں داخل ہوا جائے تو مقبرہ کی اندروانی دیواریں منقش نظر آتی ہیں اور وسط کمرہ میں قبر واقع ہے، لیکن اس کمرہ میں روشنی کا کوئی انتظام موجود نہیں۔


مقبرے کی چھت کی بات کریں تو چھجا نما اس چھت پر کم بلندی والا گنبد موجود ہے جس کے چاروں اطراف اسمائے حسنیٰ کندہ ہیں (بہت سے اب مِٹ چکے ہیں)۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس گنبد پر کسی زمانے ایک کلس موجود تھا جس کا اب نشان تک باقی نہیں ہے۔ گنبد کا کلس عہد سکھ شاہی میں اتار لیا گیا تھا، اب صرف کلس کی سلاخ نظر آتی ہے۔

  کم بلند اس گنبد پر نقاشی کانسی کار ہے جس میں نیلا اور زرد رنگ نمایاں ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس مقبرے کے گرد ایک حوض اور باغ بھی ہوا کرتا تھا۔ نور احمد چشتی (مورخ لاہور) نے بھی مقبرہ سے ملحقہ ایک حوض اور فوارے کا تذکرہ کیا ۔ انہوں نے مقبرے کے جنوب میں ایک بارہ دری کا ذکر بھی کیا ہے جو عہد مؤلف میں شکستہ اور بوسیدہ ہوچکی تھی۔
مغلوں کے زوال کے بعد جب پنجاب پر مہاراجا رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی تو مہاراجا رنجیت سنگھ نے مغلیہ عہد کے مقابر و مزارات کو تہس نہس کر دیا۔

ان جگہوں سے نوادرات کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور مقابر کا سنگِ مرمر اور سنگ سرخ اُتروا لیا ۔ بدقسمتی سے یہ مقبرہ بھی اِسی زد میں آیا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے حکم کے مطابق مقبرہ کے خانہ مدفن یعنی بالائی منزل سے وہ جواہرات سے مرصع تلوار اور قرآن کریم اُتروا لیا گیا ۔ پھر 1882 میں انگریزوں نے اس کی مرمت کروائی۔
آج کل مقبرہ کے سوا یہاں کوئی عمارت نہیں ہے۔

نہ کوئی حوض ہے اور نہ کوئی باغ ۔ محض ایک چھوٹا سا سرسبز گراؤنڈ باقی رہ گیا ہے جس میں یہ مقبرہ واقع ہے۔ اس کے  چہار جانب آہنی جنگلے لگادیے گئے ہیں تاکہ یہ مقبرہ محفوظ رکھا جاسکے۔ اِس باغ میں داخلہ صرف مشرق میں واقع ایک آہنی دروازہے سے ہی ممکن ہے جو اکثر بند رہتا ہے جبکہ مغربی جانب  ایک گھر کی دیوار ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اسے قومی یادگار قرار دے کر محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا ہے۔
حوالہ جات ؛
 ٭ نور احمد چشتی: تحقیقات چشتی، ص 973۔ مطبوعہ لاہور 2014ء۔
٭ کنہیا لال ہندی: تاریخ لاہور، تذکرہ مقبرہ شرف النساء بیگم۔ ص 233، مطبوعہ لاہور 2009ء۔
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sarru Wala Maqbara is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 09 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.