سینٹ انتخابات، ارکان اسمبلی کی ”منڈی“ لگ گئی

سینٹ انتخابات کیلئے پارٹی امیدواروں کے علاوہ ”آزاد امیدوار“ بھی میدان میں ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پارٹی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے ارکان کی ”منڈی“ لگی ہے۔ سب سے زیادہ پریشانی ”کپتان“ کو ہے

پیر 23 فروری 2015

Senate Intekhabat Arkan e Assembly Ko Mandi Lag Gaye
نواز رضا:
سینٹ انتخابات کیلئے پارٹی امیدواروں کے علاوہ ”آزاد امیدوار“ بھی میدان میں ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پارٹی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے ارکان کی ”منڈی“ لگی ہے۔ سب سے زیادہ پریشانی ”کپتان“ کو ہے۔ جنہیں پختونخوا میں ارکان کی خریدو فروخت کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ ان کی پارٹی میں پہلے ہی ”ہم خیال گروپ قائم ہے۔

تحریک انصاف کے ایک رُکن نے ایک آزاد اُمیدوار کے تجویز کنندہ کے طور پر دستخط بھی کئے ہیں۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں نے پارلیمانی قوت کو پیش نظر رکھ کر ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ لیکن آزاد اُمید وار ووٹرز کی کھلم کھلا خرید و فروخت سے انتخابی نتائج کو متاثر کرسکتے ہیں۔ یہاں سیاسی نظام اس قدر کمزور ہے کہ سینیٹ کیلئے پارٹی ٹکٹ کے اجراء کیلئے پارٹی فنڈ کے نام ر قیادت کو بھاری نذرانے پیش کرنا پڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

ارکان صوبائی اسمبلی بھی اُمیدواروں سے ”انتخابی اخراجات“ وصول کرلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت ”ارکان کی منڈی“ روکنے کیلئے پارلیمانی قوت کے مطابق امیدواروں کی بلا مقابلہ کامیابی کیلئے باہم رابطے کررہی ہے حتیٰ کہ خیبر پختونخوا میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی گورنر سردار مہتاب احمد خان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ تحریک انصاف کو جن صوبوں میں کامیابی کا امکان نہیں وہاں ”دھاندلی“ کی آڑ لے کر بائیکاٹ کردیا ہے۔

اگرچہ (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے مناسب امیدواروں کے انتخاب کیلئے پارلیمانی بورڈز کی تشکیل کے ڈرامے رچائے لیکن ”پسندیدہ“ امیدواوں کو ہی پارٹی ٹکٹ جاری کئے گئے۔ کہیں میرٹ اور پارٹی کیلئے خدمات کو پیش نظر رکھا گیا تو کہیں ”چمک“ اور ”تعلقات“ کام کر گئے۔ ٹکٹوں کے بارے میں غلط فیصلوں سے پارٹیو کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت نے آخری وقت میں اعظم سواتی سے پارٹی ٹکٹ واپس لیا۔ (ن) لیگ خیبر پختونخوا کے صدر بھی پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہوگئے۔ بلوچستان سے (ن) لیگ کے سیدال ناصر بھی ناراض ہیں۔ (ن) لیگ کی قیادت کو آخری روز محض مروجہ قانون سے لاعلمی کی وجہ سے پارٹی ٹکٹ تبدیل کرنا پڑا کیونکہ ایک ایسے شخص کو بھی ٹکٹ جاری کردیا گیا تھا جو سرکاری خذانے سے گریڈ 21کی تنخواہ لے رہا ہے۔


ووٹوں کی ”خریدو فروخت“ کی شہرت رکھنے والے ”بیوپاری“ میدان میں آگئے ہیں۔ سردست خیبر پختونخوا میں ایک ووٹ کی بولی و کروڑ تک لگ چکی ہے۔ بلوچستان میں یہ بھاؤ چار کروڑ سے بھی بڑھ گیا ہے۔ ووٹرز کو ”ڈالرز اور یوروز“ میں ادائیگی کی جارہی ہے۔ سودا کرانے کیلئے ”سہولت کار“ بھی سرگرم عمل ہیں اور کمشن وصول کررہے ہیں۔

(ن) لیگ کے پارلیمانی بورڈ کے 12ارکان میں سے 6خود پارٹی ٹکٹ کے امیدوار تھے۔ نہال ہاشمی اور سلیم ضیاء کو پنجاب سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے رحمن ملک کو تیسری بار سندھ سے پارٹی ٹکٹ سے نوازا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ (ن) لیگ کے پارٹی ٹکٹ کے اجراء کی تفصیلات وزیر اعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی کی وساطت سے پارٹی کے سیکرٹری جنرل تک پہنچیں۔

اس وقت انہیں بھی اپنے سوا کسی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کیونکہ انہوں نے پارٹی قیادت کی ہدایت پر ہی تین اہ قبل رازداری سے رپورٹ درج کرادی تھی۔ سینٹ کی خالی ہونیوالی نشستیں سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کو ملنے کا امکان ہے اس لئے (ن) لیگ کے پارلیمانی بورڈ کو 170درخواستیں موصول ہوئیں۔ و روز تک پارلیمانی بورڈ انٹرویوز کا کھیل کھیلتا رہا۔

دخواست دہندگان کی پنجاب ہاؤس میں وزیر اعظم سے ملاقات بھی کروائی گئی لیکن پارلیمانی بورڈ سے سفارشات لئے بغیر ہی 20امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ دو سٹنگ سینیٹرز سید ظفر علی شاہ اور چوہدری جعفر اقبال کو ڈراپ کردیا گیا ہے حالانکہ دونوں نے مشرف کے ”مارشلائی دور“ میں پارٹی پرچم سر بلند رکھا تھا۔ اسلام آباد سے سرتاج عزیز، ظفر علی شاہ، عرفان صدیقی، انجم عقیل، چوہدری اشرف گوجر اور ملک شجاع سمیت متعدد رہنماؤں نے پارٹی ٹکٹ کیلئے درخواستیں دی تھی۔

قبل ازیں ظفر علی شاہ کو پنجاب سے پارٹی ٹکٹ دیا گیا تھا لیکن اس بار انہوں نے اپنے آبائی حلقے سے ٹکٹ کیلئے درخواست دی جہاں سے وہ رُکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ ظفر علی شاہ ”کھری“ بات کرنے میں شہرت رکھتے تھے وہ شروع دن سے پارٹی ٹکٹ کے بارے میں مایوس دکھائی دیتے تھے۔ شاید پارٹی کو ان کی ”کھری“ باتیں پسند نہیں اس لئے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔

سرتاج عزیز کا شمار سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ پارلیمانی بورڈ کی طلبی پر پیش ہوئے تو پارلیمانی بورڈ کے تمام ارکان ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے لیکن ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا۔ سرتاج عزیز پارلیمنٹ کا رُکن نہ ہونے کی وجہ سے پونے دو سال سے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور کے طور پر کام کررہے ہیں۔ شاید انہیں پارٹی ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ وزیراعظم وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاسا رکھنا چاہتے ہیں۔

بہر حال سرتارج عزیز جیسی قدآور شخصیت ، جنہیں بین الاوقامی سطح پر بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کو پارٹی ٹکٹ کیلئے نظر انداز کرنے پر سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ نظر انداز کئے جانیوالوں میں آصف علی ملک، صدیق الفاروق، ڈاکٹر سعید الٰہی، سعید مہدی، رانا محمود الحس، سید محمد مہدی، چوہدری ریاض، سلیم ضیاء، لشکری رئیسانی اور سلیم سیف اللہ قابل ذکر ہیں۔

اگر سلیم سیف اللہ کو خیبر پختونخوا میں ٹکٹ دیدیا جاتا تو وہ بھی کامیابی کے تمام حربے جانتے ہیں۔ لیکن پارٹی قیادت نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔سینٹ کیلئے پنجاب سے اپنے 2امیدوارون سے آخری وقت پارٹی ٹکٹ واپس لے لیا گیا۔ ڈاکٹر آصف کرمانی سے ٹکٹ واپس لینے کی وجہ تو قانونی ہے لیکن خاتون کی نشست پر پنجاب اسمبلی کی رُکن کرن ڈار کی جگہ سابق اٹارنی جنرل چوہدری فاروق مرحوم کی بہو عائشہ رضا فاروق کو امیدوار بنانے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

وہ پہلے سے ہی رُکن قومی اسمبلی ہیں۔ آصف کرمانی سے ٹکٹ واپس لئے جانے کے بعد سندھ سے سلیم ضیاء کو ہنگامی طور پر لاہور بلوا کر پارٹی ٹکٹ دیا گیا۔ کلثوم پروین اس وقت ایوان بالا میں بی این پی (عوامی) کی نمائندگی کررہی ہیں۔ وہ پہلی بار مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ایوان بالا میں ایسی پہنچیں کہ ہر برسراقتدار پارٹی انہیں پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوگئی۔

بلوچستان اسمبلی کے سپیکر تاج محمد جمالی نے اپنی صاحبزادی کو خواتین کی نشست کا ٹکٹ دلوانے کیلئے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے رکھے لیکن انہیں کوئٹہ مایوس لوٹنا پڑا۔ انہوں نے لیگی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن کسی نے ان کی نہ سُنی۔ سندھ کی حد تک اُمید لگوائی جارہی تھی کہ ایم کیو ایم اور اپوزیشن جماعتیں مل کر پیپلز پارٹی سے ایک نشست چھین لیں گی لیکن رحمن ملک نے لندن جاکر الطاف حسین کو ایسا رام کیا کہ ایم کیو ایم صوبائی حکومت کا حصہ بننے جارہی ہے اور پیپلز پارٹی اور ایم کوی ایم کے درمیان سندھ میں سینیٹ کی نشستوں کی بند بانٹ ہوگئی ہے۔

آصف زرداری نے بھی اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہ پنجاب سے ندیم افضل چن کی سیٹ مانگ رہے ہیں۔ وہ چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کی نشست پر سودے بازی کرنا چاہتے ہیں اور خواجہ سعد رفیق کی ملاقات اس سلسلے کی کڑی ہے لیکن (ن) لیگ نے بھی پنجاب میں نشست کے بدلے سندھ میں ایک نشست کا تقاضا کردیا ہے۔ لہٰذا سینٹ انتخابات تک کوئی بات حتمی نہیں کہی جاسکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Senate Intekhabat Arkan e Assembly Ko Mandi Lag Gaye is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 February 2015 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.