شجرکاری،وقت کی اہم ضرورت!

اگر پانچ کروڑ افراد میں بھی یہ شعور پیدا کر دیا جائے تو آنے والے چند سال میں سرسبز پاکستان کا خواب پورا ہو سکتا ہے

Akhtar Sardar Chaudhry اختر سردارچودھری ہفتہ 19 جنوری 2019

shajar kari waqt ki aham zaroorat
اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی شخص کے ہاتھ میں کوئی پودا ہو اور اسے قیامت قائم ہونے سے پہلے پودا لگانے کی مہلت مل جائے تو وہ اس پودے کولگا دے ۔مفہوم حدیث ﷺ کس قدر چونکا دینے والاہے ۔قیامت کے منظر کی ہولناکی کا تصور کریں اور آپ ﷺ کا تاکیدی فرمان دیکھیں ۔اس حدیث مبارکہ میں شجر کاری کی اہمیت کا اندازہ کریں اور دوسری طرف ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے شجر کاری کی آگاہی مہم پرنٹ میڈیا ،سوشل میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا پر بھر پور طریقے سے جاری ہے ۔

جس کے نتیجے میں درخت بڑھنے کی بجائے کم ہو رہے ہیں ۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں اس کے باوجود شجر کاری بارے آگاہی کی مزید ضرورت ہے ۔ضرورت ہے عملی اقدام کی کیونکہ کسی پر بھی تنقید کرنا بہت آسان ہے ۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں حکومت پر تنقید کرنا ہم اپنا فرض خیال کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔

(جاری ہے)


حکومت کو اس کے لیے پرکشش پیکج دینے چاہیے ،سرکاری اداروں اور کچھ علاقوں کیلئے لازم کرنا چاہیے پھر بھی عملی طور پر عوام کو خود بھی درختوں کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے شجر کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ۔

اگر پانچ کروڑ افراد میں بھی یہ شعور پیدا کر دیا جائے کہ درخت ہمارے ملک کے لیے اس وقت کتنی اہمیت اختیار کر گئے ہیں تو آنے والے چند سال میں سر سبز پاکستان کا خواب پورا ہو سکتا ہے ۔ آج ہمارے ملک میں درخت گھٹتے جا رہے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔اگر ہر پاکستانی اپنی مدد آپ کے تحت درختوں کی تعداد کو بڑھانے کے لیے تگ ودو کرے گا تب جا کر پاکستان سرسبز پاکستان بن سکتا ہے۔

اسی سلسلے میں مختلف میڈیا پر مہم چلائی جا رہی ہے کہ ہر شخص کم از کم ایک پودا ضرور لگائے ۔کیا یہ خواب ممکن ہے ۔بالکل ممکن ہے ۔اس کے لیے آنے والے دنوں،ہفتوں میں بھر پور آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔
عالمی ماحولیاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق کسی بھی ملک کے خشک رقبے کا 25فیصد جنگلات پہ مشتمل ہونا نہایت مناسب اورانسانی زندگی کیلئے انتہائی ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

1990ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 3.3فیصد جنگلات موجود تھے۔ لیکن 2017ء کے ورلڈ بینک کے ترقیاتی اعدادوشمارکے مطابق پاکستان میں جنگلات 1.9فیصد رہ گئے ہیں۔جنگلات کی اتنی اہمیت ہونے کے باوجود پاکستان (جو کہ ایک زرعی ملک ہے) میں درختوں کی یا جنگلات کی اتنی شدید کمی ہمارے لیے باعث تعجب ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ تعدا ددن بدن مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔

درختوں سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ان میں لکڑی اہم ہے ۔ماچس کی تیلی اور انواع اقسام کا فرنیچربنانے سے لے کر جلانے تک ضروریات پوری کرتی ہے ۔اس سے کاغذ بھی بنایا جاتا ہے ۔درختوں کی شاخیں جانوروں کے بطور چارہ اور اس کے پتے کھاد بنانے کے کام آتے ہیں ۔درختوں سے پھل ،پھول بھی حاصل ہوتے ہیں اور انہیں ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔

سبزی یا چارہ خور جانوروں کو دیگر جانور یا انسان اپنی خوراک بناتا ہے ۔ اس طرح درخت، پودوں کے ذریعے خوراک کی ایک زنجیر بن جاتی ہے۔
انسان اور دیگر تمام جانداروں کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اور آکسیجن درختوں سے حاصل ہوتی ہے یعنی درخت ہماری زندگی کے ضامن ہیں۔درختوں کی بدولت ہی زمین کے درجہ حرارت میں کمی ممکن ہے ۔

یہ ماحول کو خوبصورت بنانے ،دھوپ میں سایہ فراہم کرنے کے بھی کام آتے ہیں ۔درخت آکسیجن مہیا کرتے ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔درخت ماحول کو صاف رکھتے ہیں سیلاب اور طوفانوں کو روکتے ہیں۔لاکھوں پرندوں کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔علاوہ ازیں سرسبز وشاداب سب درخت آنکھوں کو سکون دیتے ہیں ۔ یہ تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

درختوں کی ہزاروں اقسام ہیں انہیں ساخت وفوائد اور ماحول وآب وہوا کے علاوہ زمینی درجہ حرارت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اسی علاقہ کی مناسبت سے لگانا چاہیے ۔اس کی ایک مثال سفیدے کا درخت ہے جس سے ماچس کی تیلیاں بنائی جاتی ہیں ۔یہ درخت زمین سے زیادہ پانی چوستا ہے اس کا کام سیم زدہ زمین کو قابل کاشت بھی بنانا ہے ۔ہمارے ملک کے منصوبہ سازوں نے پہلا فائدہ اور خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے سڑکوں کے کنارے لگا دیا ۔

جس سے زیر زمین پانی کی سطح مزید نیچے چلی گئی ۔فائدے کی بجائے نقصان ہوا ۔حالانکہ پہلے ہی زیر زمین پانی کی سطح کافی نیچے ہے ۔جب اس پر ماہرین نے منصوبہ سازوں کو متوجہ کیا تو انہوں نے وعدہ کیا کہ ان کی جگہ جلد دوسرے پودے لگا دیے جائیں گے لیکن تاحال ایسا نہ ہوسکا ۔ہمیں اپنے ملک سے محبت ہی نہیں ہے ۔ڈنگ ٹپاؤ کام کیے جاتے ہیں ۔
زیر زمین پانی کی سطح کا خطرناک حد تک نیچے جانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس سے پینے کا پانی بھی نایاب ہو جائے گا ۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سفیدہ صرف وہاں لگانا چاہیے جہاں زمین سیم و تھور زدہ ہو ایک دن سفیدہ 25 لیٹرپانی چوس لیتا ہے۔خیر کہنا یہ تھا کہ درخت ماحول اور زمینی ساخت کو مد نظر رکھ کر لگانے چاہیے ۔مثلاََ جنوبی پنجاب میں بیری،شریں،سوہانجنا،کیکر،پھلائی،کھجور،ون،جنڈ،آم وغیرہ کے درخت مناسب ہیں ۔وسطی پنجاب میں جامن،توت،سمبل، املتاس،شیشم،پیپل،بکاین،لسوڑا وغیرہ۔

شمالی پنجاب میں اخروٹ،بادام،دیودار، کچنار، پھلائی،کیل،وغیرہ ۔اسلام آباداور گرد و نواع میں پاپولر،کچنار،بیری،چنار اور کاص طور پر زیتون کا درخت۔سندھ میں کیکر،بیری پھلائی،ون،فراش،سہانجنا،کھجور، املتاس، برنا، نیم،جامن،پیپل،ناریل وغیرہ اور بلوچستان کے علاقہ زیارت میں جونپیر کا قدیم جنگل موجود ہے۔ اس کے علاوہ کے پی کے سپھلائی،ون،چلغوزہ،پائن وغیرہ اور شیشم،دیودار،پاپولر،کیکر،
چنار،پائن وغیرہ مناسب ہیں۔

ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور موسمی تبدیلوں سے ہم سب واقف ہیں ۔شجر کاری ملک کے لیے اس وقت ایک اہم ترین ضرورت بن چکی ہے ۔زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو روکنے کے لیے بارشوں کی اشد ضرورت ہے ۔جس کے لیے درختوں کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہونے سے فضاء میں نمی کا تناسب موزوں رہتا ہے اور یہی بخارات اوپر جاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں، جس سے بارش ہوتی ہے۔

ہمیں اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ ہمارا ملک ان چند ایک خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جس میں ایک سال میں دو سیزن شجر کاری کے آتے ہیں ۔اللہ کی اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت ہے ۔شجر کاری کا پہلا سیزن جنوری کے وسط سے مارچ کے وسط تک اور دوسرا جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے ۔
بھارت نے ایک دن میں سب سے زیادہ درخت لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے ۔

ہم صوبائی اور قومی حکومت سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ خدارا درخت لگانے کے کام کو ہنگامی اہمیت دے کر اس پر حکومتی سطح پر کام کیا جائے ۔شجرکاری کے فروغ کے لیے سالانہ کم ا ز کم 03 ارب کے فنڈز مختص کریں اور اس کی مانیٹرنگ بھی کی جائے ملک کے طول و عرض میں بہتے دریاؤں اور نہروں کے کناروں ،سڑکوں کے بچھے جال کے دونوں ا طراف درخت لگائیں جائیں ۔

ہمیں بھی اپنے سکولز ،گھروں کے صحن ،کھیتوں میں درخت لگانے چاہیے ۔
رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے کہ اس کا اجر دنیا میں اور مرنے کے بعد بھی ملتا ہے ۔”مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے انسان درندہ، پرندہ یا چوپایا کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے“۔ ( مفہوم حدیث مسلم شریف)اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن پاک کی سورة نحل میں فرمایا ہے کہ ترجمہ ”وہی(خدا) ہے جو تمہارے فائدہ کے لئے آسمان سے پانی برساتا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اس سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو، اس سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے، بیشک ان لوگوں کیلئے تو اس میں نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں۔

“اس آیت مبارکہ میں درختوں کے فوائد بتائے گئے ہیں اور آخر میں فرمایا گیا ہے اس میں نشانی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

shajar kari waqt ki aham zaroorat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 January 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.