سیاسی تعصب‘قتل و غارت اور نا اہلیت کی بھینٹ چڑھتا کراچی

شیر شاہ پراچہ چوک پر دھماکے میں 17 قیمتی جانیں لقمہ اجل،حسب روایت تخریبی کاروائی پر منوں مٹی ڈال دی گئی

جمعرات 6 جنوری 2022

Siyasi Tasub Qatal O Garat Aur Na Ehliyat Ki Bheent Charta Karachi
آر ایس آئی
شاید یہ شعر شاعر نے کراچی کے ہی بارے میں کہا ہو گا کہ ”وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔۔۔حادثہ ایک پَل میں نہیں ہوتا“۔کیونکہ یہ سوال تو صرف کراچی کے متعلق ہی اُٹھایا جا سکتا ہے کہ یہاں حادثے کس پَل نہیں ہوتے؟۔خدا لگتی بھی یہ ہی ہے کہ اس شہر بے خانماں میں حادثے ہر پَل ہی رونما ہوتے رہتے ہیں اور اہلیانِ کراچی برس ہا برس سے اپنی زندگی کا ہر پَل،نت نئے حادثوں کے بیچ صبر و شکر کے ساتھ بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

یاد رہے کہ کراچی کے شہریوں کے لئے سیاست بھی ایک حادثہ ہے اور حکومت بھی ایک حادثہ،اب وہ چاہے کسی بھی سیاسی جماعت کیوں نہ ہو۔جبکہ شہرِ کراچی میں خدمت،فلاح و بہبود اور دل جوئی کے نام پر جنم لینے والے الم ناک حادثوں اور سانحوں کو بھی اکثر معمول کی وارداتیں سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یعنی سیاست میں تعصب،نفرت اور قتل و غارت گری کے حادثات،یا حکومت میں اقربا پروری،کوٹہ سسٹم اور نا اہلیت کے حادثے اور انسانی خدمت کی آڑ میں سستی شہرت پانے اور جھوٹی ناموری کمانے کے حادثے کراچی کے باسیوں پر نمک پاشی کے لئے کیا کم تھے کہ گزشتہ دنوں شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے دھماکہ میں بھی 17 قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جانے کا جاں گسل صدمہ شہر بھر کو اشک بار کر گیا۔


المیہ ملاحظہ ہو کہ حادثہ سے بڑا حادثہ تو یہ ہوا کہ اس اندوہ ناک حادثے کو ایک ہفتہ سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اس بات کا ابھی تک واضح تعین نہیں کیا جا سکا کہ مذکورہ مقام پر ہونے والے دھماکے اور حادثے کی اصل وجہ کیا تھی۔بم ڈسپوزل یونٹ کا اصرار ہے کہ ”تجاوزات میں چھپے نالے کے وسط میں گزرنے والی زیر زمین سیوریج لائن میں گیس اخراج کے باعث دھماکہ ہوا“۔

جبکہ سوئی سدرن حکام کا کہنا ہے کہ ”دھماکے کی جائے مقام پر کوئی گیس لائن سرے سے موجود ہی نہیں تھی“۔قبل ازیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب اس امکان کو بھی سختی کے ساتھ خارج از امکان قرار دے دیا گیا تھا کہ ”دھماکہ کسی دہشت گرد کارروائی کا نتیجہ ہو سکتا ہے“۔دراصل دھماکے وجوہات تو سب کے سامنے اظہر من الشمس ہیں،مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنی غلطی کون تسلیم کرے؟اور جب مجرمانہ کوتاہیوں میں شراکت دار اَن گنت ہوں تو پھر غلطی و کوتاہی کے مرتکب ہر ادارے اور فرد کی اولین کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ واقعہ کا تمام تر ذمہ کسی دوسرے فریق پر ڈال کر اپنے دامن کو احساس ذمہ داری کی گرفت میں آنے سے صاف بچا لیا جائے۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے الم ناک حادثے پر منوں مٹی ڈالنے کی ”سفاکانہ کاوش“ میں تمام ادارے شب و روز بھرپور انداز میں مصروف عمل ہیں۔تاکہ ہر قسم کی قانونی جزا و سزا سے واقعہ کے اصل ذمہ داروں کو بچایا جا سکے اور ویسے بھی ہماری حادثاتی تاریخ گواہ ہے کہ ”وطن عزیز پاکستان میں ہونے والے کسی بھی اندوہناک حادثے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا حادثہ کبھی رونما ہوا ہی نہیں“۔

یقینا اس مرتبہ بھی جیسے مذکورہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے 17 معصوم افراد کو تہہ خاک دفنا دیا گیا ہے،بالکل ویسے ہی اس کیس سے جڑی ہر تفتیشی رپورٹ اور کاغذی شہادت کو بھی کچھ عرصے بعد فائلوں کے قبرستان میں تمام تر دفتری اعزاز کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفنا دیا جائے گا اور ہم کسی اور اندوہ ناک حادثے یا الم ناک سانحے پر ماتم کناں ہوں گے۔


دوسری جانب اس سانحہ کے وقوع پذیر ہونے میں سرکاری اداروں کی نااہلی اور سندھ حکومت کی انتظامی غفلت کے علاوہ،اُس عام شہری کا بھی پورا پورا کردار اور حصہ بقدر جثہ ہے،جسے غیر قانونی تجاوزات قائم کرنے کا خبط ہے اور غیر قانونی جگہوں پر گھر اور دُکان بنانے کا یہ پاگل اَب اس انتہا پر جا پہنچا ہے کہ جب حالیہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی سمیت ملک بھر میں غیر قانونی تجاوزات کے خاتمے پر کمر بستہ ہو چکی ہے تو یہ ہی عام شہری گلی گلی احتجاج کی صورت میں ضد کر رہا ہے کہ اُس کی غیر قانونی تجاوزات کی قانونی حیثیت کو بحال کر دیا جائے۔

ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے اگر اِن عاقبت نااندیش شہریوں کے دباؤ میں آ کر سپریم کورٹ آف پاکستان نالوں پر بنی ہوئی تمام تر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو قانونی قرار دے دیتی تو آج ہم شیر شاہ پراچہ چوک پر ہونے والے حادثہ پر حکومتی اداروں کو لعن طعن کرنے کے بجائے اس سانحہ میں ہلاک ہونے والے 17 معصوم افراد کی بدقسمتی کو کوس رہے ہوتے۔


ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نسلہ ٹاور کے عدالتی حکم پر مسماری اور شیر شاہ پراچہ چوک کے نالے پر ہونے والے دھماکے کے نتیجہ میں ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد لوگ کچھ خوفِ خدا کھاتے اور رضاکارانہ طور پر اپنی غیر قانونی تجاوزات کا خاتمہ کر دیتے یا پھر کم از کم نئی غیر قانونی تجاوزات کرنے سے حتیٰ المقدور اجتناب برتتے مگر نام نہاد عام آدمی کا لالچ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ ابھی بھی غیر قانونی تجاوزات کو ہی اپنے لئے منافع کا سودا سمجھ رہا ہے اور غیر قانونی تجاوزات پر موجود گھروں،دُکانوں اور پلاٹوں کی قیمت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہی ہیں کیونکہ انہیں خریدنے والے پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر بولیاں لگا رہے ہیں۔

کیونکہ لالچی آدمی کے لئے نفع سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہیں ہوتا حتیٰ کہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان کا تحفظ بھی نہیں۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ نسلہ ٹاور کیخلاف عدالتی کارروائی کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائزڈ کرنے کیلئے قانون سازی کی تجویز سامنے آنے کے بعد کراچی میں غیر قانونی تعمیرات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور شہر بھر میں بااثر افراد کی جانب سے ایسی خالی اراضی پر بھی گوٹھ،دیہات وغیرہ کے بورڈ لگا دیئے ہیں،جس پر ایک مکان بھی تعمیر نہیں ہے۔


جبکہ غیر قانونی تعمیرات کیلئے قانون سازی کی تجویز منظر عام پر آ جانے کے بعد اوپن مارکیٹ میں تجاوزات پر بنی ہوئی باؤسنگ اسکیموں کے پلاٹوں کی قیمتوں میں ہوش رہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔علاوہ ازیں بورڈ آف ریونیو میں 2012ء سے پہلے کے جعلی کاغذات بنانے کے عمل میں بھی تیزی آئی ہے اور بورڈ آف ریونیو 2020ء کے جدید دور میں بھی گوٹھ بنانے کی اجازت دے رہا ہے۔

ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق صرف سہراب گوٹھ سے ٹول پلازہ تک صرف ایک دہائی کے دوران 12 سو سے زائد نئے گوٹھ بنا کر اربوں کی سرکاری اراضی فروخت کر دی گئی۔یعنی ہمارے ساتھ بھلے کتنے بھی مالی فراد یا جان لیوا حادثات ہو جائیں لیکن ہمارا لالچ ہمیں غیر قانونی تجاوزات پر اپنا گھر،دُکان وغیرہ بنانے کی ترغیب دیتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Siyasi Tasub Qatal O Garat Aur Na Ehliyat Ki Bheent Charta Karachi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 January 2022 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.