تھرکے صحرا سے بھی ظالم لوگ

ہمارے لاغر معاشرتی رویوں، ہمارے نحیف و نزار اخلاقی رجحانات اور ہمارے ناتواں احساس زیاں کے باعث ایسی کتنی ہی دل سوز کہانیاں ہیں جو حالات کی گرد تلے دب کر رہ جاتی ہیں

Hayat abdullah حیات عبداللہ بدھ 6 فروری 2019

thar ke sehra se bhi zalim log
کسی نخل حسرت کی نئی کونپلیں جب بھی چٹکتی ہیں بھوک اور افلاس کے عارضوں کا ہجوم اپنے دانت کٹکٹانے لگتا ہے، بھوکے پیٹ اور پیاسے ہونٹوں کے باعث آنکھوں میں اداسی گڑ کر رہ جاتی ہے، تھر کا بے آب و گیاہ صحرا نو مولود بچوں کے بدن کی بوٹیاں نوچتا چلا جا رہا ہے۔ اجالوں اور آسودگیوں کی سر پٹکتی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں، مسیحائوں کی منتظر آنکھوں میں بے قراری مزید دو بچوں کو نوچ لے گئی۔

بھوک اور افلاس کا مہیب چھلاوہ گزشتہ ایک ماہ میں 57 گھروں کے چراغ گل کر چکا، وہ جو چہرہ شناس نظریں تھیں، وہ جو درد آشنائی کے بلند بانگ دعوے تھے، وہ جو ان صحرا نشینوں کی سوختہ جبینوں پر کہکشائیں بکھیرنے کا وشواس لے کر آئے تھے اور وہ جو مظلوموں کے سارے کرب کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کے عہد و پیمان کا لنگوٹ کس کر میدان میں اترے تھے ان کی ترجیحات کی کسی فہرست کے کونے کھدرے میں صحرائے تھر کے بھوک سے مرتے ان بچوں کے نام تک نہیں، ان صحرا کے باسیوں کے درد حد سے سوا ہو چکے مگر پرسان حال لوگوں کی خیر خبر تک نہیں۔

(جاری ہے)


سنا ہو گا کسی سے درد کی اک حد بھی ہوتی ہے
ملو ہم سے کہ ہم اس حد کے اکثر پار جاتے ہیں
یہ اقبال ٹائون لاہور ہے اس کے ایک گندے نالے میں عظمیٰ نامی سولہ سالہ بچی کی لاش پڑی ہے، ماہ رخ اور دو دیگر عورتوں نے اسے قتل کر کے لاش گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر گندے نالے میں پھینک دی، عظمیٰ آٹھ ماہ سے ان کی گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر رہی تھی، ملزموں کے مطابق انہوں نے عظمیٰ کو ان کی بیٹی کے کھانے کو چکھتے ہوئے ’’رنگے ہاتھوں‘‘ پکڑ لیا تھا، اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں موت اس کا مقدر ٹھہرا دی گئی اور موت کے بعد گندا نالہ اس کے جسم کا نصیبہ بنا دیا گیا، انہوں نے ہنڈیا پکانے والا سٹیل کا چمچ عظمیٰ کے سر پر دے مارا اور تین منٹ کے اندر عظمیٰ اس ظالم اور بھوکے سماج سے روٹھ کر کہیں بہت دور چلی گئی، کھانے کے محض ایک لقمے کے عوض ایک بچی کی جان لے لی گئی، ایک غریب کی جان ایک نوالے سے بھی ارزاں ٹھہری۔

یارو اس کی قبر میں دو روٹی بھی رکھ دینا
مر کے جانے والا کب کا بھوکا تھا؟
لاہور ہی میں سمیرا نامی لڑکی کو استری سے جلا دیا گیا، فیصل آباد میں دس سالہ طیبہ پر تشدد کیا گیا، راولپنڈی میں گیارہ سالہ کنزیٰ پر چھری اور بیٹ سے تشدد، لاہور اکبری گیٹ کے علاقے میں سولہ سالہ اختر اور اس کی چودہ سالہ بہن عاطیہ پر ان کی مالکن نے بدترین تشدد کیا، اختر طبی  امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ گیا۔

ہمارے لاغر معاشرتی رویوں، ہمارے نحیف و نزار اخلاقی رجحانات اور ہمارے ناتواں احساس زیاں کے باعث ایسی کتنی ہی دل سوز کہانیاں ہیں جو حالات کی گرد تلے دب کر رہ جاتی ہیں۔ ایسی کتنی ہی جگر پاش کتھائیں ہیں کہ جن میں مر جانے والے بچوں کے غریب والدین کو صلح پر مجبور کیا جاتا ہے کیونکہ ان مظلوم والدین کے پاس ان جابر و ظالم لوگوں سے مقابلہ کرنے کی سکت ہوتی ہے نہ تاب۔

روٹی کیوں جلی؟ برتن کیوں توڑ ڈالا؟ اور پیسے کیوں چرا لئے؟ جیسی سطحی باتوں پر معصوم جانوں پر بدترین تشدد کر کے موت کے گھاٹ  اتار دیا جانا کسی اپاہج اور بیمار سوچ کا شاخسانہ ہی تو ہے، تشدد کرنے والے ان پڑھ اور جاہل بھی نہیں بلکہ کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی بیورو کریٹ، کوئی صاحب ثروت ہے تو کوئی سرمایہ دار، یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خود کو مہذب کہلوانے والے لوگوں کے بھی دریچہ خیال میں کسی رحم دلی اور نرم خوئی کا گزر تک نہیں، پھر مجھے کہنے دیجیے کہ شاہانہ کوٹھیوں اور بنگلوں میں مقیم ان لوگوں کے دل کی گزرگاہ تھر کے صحرا سے بھی زیادہ بے حس اور بے رحم ہے۔

معصوم پھولوں اور کلیوں کے جسموں پر بدترین تشدد کرنے والے ان لوگوں کے جذبات و احساسات کا کھٹورپن کسی لق و دق صحرا سے بھی زیادہ تلخیوں میں ڈھلا ہے۔اے تھر کے صحرا! میں تجھے بڑا سفاک سمجھتا رہا مگر ہمارے معاشرے کے اعلیٰ حسب و نسب کے حامل خانوادوں میں تجھ سے بھی زیادہ بے رحم انسان موجود ہیں، ایسے سنگلاخ دل انسان کہ جن کے کر توت دیکھ کر صحرا بھی شرما جائیں، تھر کے صحرا میں تو بارش ہو جائے تو ہر طرف ہریالی پھوٹ پڑتی ہے مگر ہمارے ان پتھریلے لوگوں کے دلوں پر فرحت بخش ساون بھادوں اور نشاط انگیز برکھا رتوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔

خان بڑے دریا دل ہوتے ہیں اور آج ایک خان پاکستان کا وزیراعظم ہے جانے کیوں میرا دل چاہ رہا ہے کہ بھوک اور پیاس سے مرتے ان صحرا نشینوں کی طرف سے یہ ایک شعر عمران خان کی نذر کر دوں۔
ہمیں کیا آپ کی دریا دلی سے
ہمارے لب تو سوکھے رہ گئے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

thar ke sehra se bhi zalim log is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 06 February 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.