اترپردیش میں بی جے پی کی جیت

1967ء کے بعد یوپی اسمبلی میں سب سے کم مسلم رکن اسمبلی پہنچے ہندو تواکی فتح، سیکولرازم ہار گیا

ہفتہ 25 مارچ 2017

Uttar Pradesh Main BJP Ki Jeet
بھارت کی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے نتائج سے یہ واضھ ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں سیکولر کو شکست اورہندو توا کی جیت ہوئی ہے ۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈکی 70 نشستوں میں سے 57 جے پی کے حصے میں آئیں ، کانگریس صرف گیارہ نشستیں ہی لے سکی ۔ کانگریس کواگرچہ اترپردیش میں ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا لیکن پنجاب میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے ساتھ گوا، مانی پور میں ذلت سے بچ گئی ہے ۔

عام آدمی پارٹی کو پنجاب اور گوا سے بہت زیادہ امید تھی لیکن دہلی میں 70 میں سے 67سیٹیں حاصل کرنے والی کو اگوا میں ایک بھی نشست نہ مل سکی ۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کو کل 117 نشستوں میں سے صرف 20سیٹیں ملی ہیں اوربی جے پی کے حصے میں صرف تین آئین ، گوا کی 40نشستوں میں 16 بی جے پی کو ملیں 18کانگریس لینے میں کامیاب ہوگئی ۔

(جاری ہے)

مانی پور میں بھی 22نشستیں بی جے جیتی اور کانگریس 28سیٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی ۔

مانی پور میں حقوق انسانی کا رکن اور ریاست کے عوام کیلئے 16 سال تک بھوک ہڑتال پررہنے والی ایردم شرمیلا کو اس کا صلہ محض 90ووٹوں کی صورت میں ملا۔ ان کے انتخابی قافلے میں حامیوں کی تعداد سکیورٹی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر رہی ۔ تقریر سننے یاملنے والوں کو بھیڑکا دور دور تک نام ونشان نہ تھا اور جو نظر بھی آتے ان میں زیادہ صرف 16 طویل سالوں تک بھوک ہڑتال کرنے والی ” دیوی شرمیلا “ کودیکھنے آتے ۔

ستم ظریفی تویہ ہے کہ جس اروم شرمیلا نے ریاست میں فوج کے غیر قانونی اختیارات کے خاتمے کیلئے بھوک ہڑتال کی لیکن اُسے مانی پور کے لوگوں نے باہر والی قراردیدیا۔ اروم وزیراعلیٰ بننا چاہتی تھی لیکن ویزراعلیٰ کو دعویداری کرنے والی سیاسی جماعت پیپلز ریسرجینس اینڈجسٹس اتحاد نے انتخابی میدان میں محض تین ہی امیدوار اتارے تھے ووٹروں نے اروم کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔

ان کی پارٹی کے باقی دوامیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں ۔
اگرترپردیش کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلا ہے کہ 37 سال بعد بی جے پی ریاستی اسمبلی 403 میں سے 325 لینے میں کامیاب ہوئی ۔ اس سے پہلے 1991 ء کی رام لہر میں پارٹی 200 نشستیں پارکرکے مکمل اکثریت کے قریب پہنچ سکی تھی۔ اگرووٹ فیصد کی بات کی جائے تو بی جے پی نے 75 فیصد ووٹ لئے ۔

ایس پی کانگریس اتحاد 28 فیصد اورمایاوتی کی بی ایس پی 22 فیصد ووٹوں کی مالک ہے ۔ اکھیلش یادوکی پارٹی کوگزشتہ الیکشن میں 224 نشستیں ملی تھی اس بار 44 کا ہندسہ ہی پار نہیں کیاجاسکا۔ یہ پہلی بار ہے جب ایس پی کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ملائم سنگھ یادونے پارٹی بنانے کے بعد پسماندہ ووٹوں کے سہارے جو مضبوط عوامی حمایت تیار کی تھی ، اکھلیش یادو اس کو قائم نہیں رکھ سکے ۔

دراصل ایس پی کا نگریس کے ساتھ اتحاد ہی غلط تھا ۔ کانگریس اترپردیش میں ہارنے کیلئے الیکشن لڑرہی تھی ۔ کانگریس 27 سالوں سے ریاست کے اقتدار سے باہر ہے اور ایس پی کو باہمی اختلاف وانتشار لے ڈوبا۔ کانگریس اور سماج وادی پارٹی سے اتحاد سے بھی جیت کی راہ ہموار نہ ہوسکی اور جیت کو بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا ۔
تاہم ان انتخابات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دلتوں کا رحجان پارلیمانی انتخابات سے اسمبلی الیکشن تک بی جے پی کی طرف اور یوپی الیکشن میں زیادہ ترووٹ بی جے پی کو دیا۔

جن علاقوں میں دلتوں کا سب سے زیادہ ووٹ تھا وہاں سے بی جے پی نے کامیابی کی ہے ۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں مسلم قیادت نے پارلیمانی الیکشن نتائج سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ۔ مسلم لیڈروں کے باہمی نفاق نے مسلم طبقے کو شکست سے دوچار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اترپردیش ریاست میں 21 فیصد مسلم آبادی ہے لیکن ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی تک نہیں پہنچ سکا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی نے مسلم دشمنی نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کسی بھی مسلمان کو انتخابی ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا بلکہ علی الااعلان کہا گیا کہ ہمیں مسلمانوں کی ضرورت نہیں ۔
بے جے پی نے 2012ء کے انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کوٹکٹ نہیں دیا۔ اس وقت گجرات کے میڈیا نے اسے امت شاہ کا سیاسی حربہ قرار دیا تھا اورہندو تواکی لیبارٹری بھی کہاگیا اورمسلمانوں کو سیاسی طور پر پسماندگی میں دھکیل دیا گیا جس کے نتیجے میں 2012ء کے گجرات اسمبلی الیکشن میں اور صرف چار مسلم امیدوار کانگریس پارٹی کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوکر یاآئے تھے ۔

یہ ایک سیاسی تجربہ تھا جس میں بے جے پی کو پوری کامیابی ملی ۔ اب یہ سیاسی تجربہ ہر ریاستی الیکشن میں دہرایا جارہا ہے اور بے جے پی مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر جیت بھی گئی ۔ اترپردیش آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے ۔ یہاں سے صرف 24مسلم امیدوار منتخب ہوئے لیکن ان کا تعلق حکومتی پارٹی سے نہیں ہے اتراکھنڈ میں بھی بی جے پی کا ایک بھی رکن مسلم نہیں ۔

ان انتخابات کے وسط اور مغربی ہندوستان کی ریاستوں میں مسلم کمیونٹی سے صرف ایک ہی وزیر ہے ۔ بی جے پی سرکار میں صرف راجستھان واحد ریاست ہے جہاں سے کوئی مسلم وزیر ہے اس طرح 200 نشستوں والی راجستھان اسمبلی صرف دو مسلم ارکان اسمبلی ہیں ۔ مدھیہ پردیش ، گجرات چھتیں گڑھ ، ہریانہ ، مہاراشٹر ، اترپردیش سے بی جے پی کا کوئی مسلم رکن نہیں ہے ۔
گورا ور پنجاب میں مسلم آبادی نہ ہونے کے برابر ، مانی پور میں مسلمانوں کی تعداد جملہ آبادی کے 8فیصد کے برابر ہے ۔

یہ اتنی کم آبادی ہے کہ مسلمان انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ۔حالات وواقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے کامیابی آسان نہیں تھی ۔ انتخابی مہم کے ابتدائی تین مرحلوں تک سماج وادی پارٹی کا پلڑا بھاری تھا لیکن امکانی شکست کو محسوس کرتے ہوئے بی جے پی اپنے روایتی ایجنڈا پرواپس آگئی اور انتخابی مہم کو نفرت پر مبنی بنانے کا آغاز وزیراعظم نرنیدرمودی نے کیا ۔

سابق اٹل بہاری وجپائی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی اسمبلی الیکشن ہوئے تھے لیکن واجپائی نے انتخابی مہم کو اس سطح تک نہیں گرایاتھا جو کہ نریندرمودی نے کیا ہے ۔ مودی اپنی تقاریر جملوں سے وزیراعظم نہیں لگ رہے تھے ۔ مودی نے مسلم دشمنوں کو میدان میں اتار پھر کیا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں دوڑ شروع ہوگئی ۔ مودی نے قبرستان ، شمشان ، عید دیوالی ، رمضان اور ہولی جیسے جملوں سے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانیوں کو بانٹ دیا اور مودی کے پرچارکوں نے سبق لے جاتے ہوئے مسلم میتوں کو جلانے اور برقعہ پرپابندی جیسے بیانات سے ماحول کوآلودہ کریا۔

آخری مرحلے کو پولنگ سے قبل لکھنو میں داعش کے کارکن کے جعلی پولیس مقابلے کا ڈرامہ چایا گیا ۔ آخری مرحلے کی رائے دہی کو بی جے پی کے حق میں موڑنے اورمذہبی اساس پر تقسیم کیلئے انک میڈیا اور مودی نواز میڈیا نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ ٹی وی چینلز کے نیوز اینکرز مسلم نوجوانوں کا نام لیکر انہیں دہشت گرد قرار دے رہے تھے ۔ مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ نے بھی ٹی وی پر ملسم جوانوں کے داعش سے تعلقات کی تصدیق کی۔

الغرض قبرستان سے ان کاؤنٹرتک بی جے پی نے اپنے روایتی ووٹ بینک کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کئی سخت گیر فیصلے ہوسکتے ہیں ۔ رام مندر کی تعمیر ، یکساں سول کوڈوغیرہ ۔
بلاشبہ وزیراعظم نریندرمودی اور پارٹی صدامت شاہ نے انتخابی میدان میں جس قسم کے موضوعات کو ہوا دی تھی ، وہ خالص فرقہ وارانہ نوعیت کے موضوعات تھے ۔

وہ قبرستان اورشمشان کا تنازع ہو یا پھر انتخابی مہم کے دوران امت شاہ کی طرف سے قصاب کا تذکرہ ۔ اس قسم کے بیانات کا واحد مقصد ووٹ کی فرقہ وارانہ صف بندی تھی اور آخری مرحلے میں وزیراعظم نے بنارس میں لگاتار تین روز تک روڈ شو اور مندروں میں پوجا کرکے اپنا ایجنڈا واضح کردیا تھا ۔ امت شاہ نے اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہین یوپی میں تمام مذبح خانے بند کردیئے جائیں گے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یوپی میں کسی قسم کا ماحول پیدا کرتی ہے ۔ انتخابی نتائج سے حوصلہ پاکر ہندوفرقہ پرستوں نے رام مندرکاراگ الاپنا شروع کردیا ہے ۔
مبصرین کاخیال ہے کہ یوپی میں بی جے پی کی زبردست کامیابی نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ قومی سیاست میں نرنیدر مودی کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی جیسے مسائل کے باوجود انہیں اکثریت ملی ہے ۔

بائیں بازو کی جماعتوں نے اترپردیش میں بھارتیہ جتنا پارٹی کی کامیابی پر کہا ہے کہ اس میں ایک خطرناک امکان پوشیدہ ہے کیونکہ اس سے بھارت میں تفریق آمیزہ اور نقصان دہ ہندو تواکی سیاست کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ بائیں بازو کی پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اترپردیش میں بھارتیہ جتنا پارٹی کی کامیابی فرقہ وارانہ اپیل کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ بی جے پی سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تما کمیونسٹ اور سیکولر طاقتوں کو متحدہونا چاہیے ۔


بہرطور انتخابی نتائج پر یہ سول اٹھتا ہے کہ آخری بی جے پی کو اتنی بڑی کامیابی کیسے مل گئی ۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایادتی نے ای وی ایم مشینوں میں گڑ بڑکے شبے کا اظہار کیا ہے 403 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کو 312 نشستیں ملیں ۔ اور یہ کامیابی بی جے پی کو رام جنم بھومی تحریک کے دوران بھی حاصل نہیں ہوتی تھی ۔ حالیہ انتخابی نتائج سے اترپردیش میں حکمران جماعت سماج وادی خوش فہمیوں کا شکار رہی اور وہ ہوائی قلعے تعمیر کرنے میں مصروف رہی ۔

دوسری جانب بی جے پی کی جیت کیلئے سیکولر پارٹیاں بھی ذمہ دار ہیں جن کے سربراہ اپنی انا کے لئے متحدہ نہیں ہوئے اور سیکولرووٹ کو کئی ووٹوں میں تقسیم کروادیا۔ سماج وادی ، کانگریس، بہوجن سماج وادی کے علاوہ دیگر سیکولر پارٹیاں پیس پارٹی ، آرایل ڈی قومی ایکتا دل ، کل ہندمجلس اتحاد المسلمین وغیرہ کو مجموعی طور پر تین فیصد ووٹ ملے ۔ کل ملا کر تمام سیکولر جماعتوں کو 55 فیصد سے زائد ووٹ ملے اور بھگوا جماعت بی جے پی کو 39 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔

اگر یہ سب پارٹیاں بہار کی طرح متحدہ ہوکر اسمبلی الیکشن میں بی جے بی پی کو اقتدار میں لانے کے اصل ذمہ دار کھلیش ییادو، مایاوتی ، راہول گاندھی ، اجیت سنگھ ، اسدالدین اویسی ہیں ۔ ان رہنماؤں کی وجہ سے سیکولر پارٹیاں کا گاٹھ جوڑ نہ بن سکا اور ساراملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا گیا ۔ چنانچہ اگر ترپردیش کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ مذکورہ دونوں جماعتوں نے کسی نہ کسی طرح بی جے پی کو باآسانی اقتدار تک پہنچنے کا راستہ فراہم کیا ۔


اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بی جے پی کی جیت کے بعد نہ صرف تمام سیکولر سیاسی جماعتوں بلکہ ہندوستان میں سیکولر ازم کا مستقبل ہی خطرے میں پڑگیا ہے ۔ جن ریاستوں میں فرقہ پرست پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے وہاں دلتوں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے اندر خوف و دہشت کاماحول پیدا ہوگیا ہے ۔ مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کے پکوان کی جانچ کی جارہی ہے کہیں اس میں بیف تو نہیں مہااشٹراور ہریانہ میں سخت ترین گائے ڈبیحہ مخالف قانون بناکر مسلمانوں کی معیشت پرراست حملہ کیا گیا۔ تعلیمی نصاب کو بھگوارنگ میں رنگا جارہا ہے اور من مانی تاریخ ازسرنوتاریخ رقم کی جارہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Uttar Pradesh Main BJP Ki Jeet is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 25 March 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.