وطن سے محبت اور جان قربان کرنے کا جذبہ

اکیس سال کی اس زندگی میں جہاں بہت سی باتیں اور نعرے فوج کے حق میں سنے وہاں اس کے خلاف بھی سنے،خون کھولتا ہے کہ حقیقت کا جن کو علم نہیں وہ کیسے یہ سب باتیں کر سکتے

جمعہ 13 مارچ 2020

Watan Se Mohabbat aur jan qurban karne ka jazba
تحریر: غلام حفصہ 

کتنا آسان لگتا ہے بظاہر... یہ کہہ دینا کہ اگر یہ فوجی جان دیتے ہیں تو سرکار سے تنخواہ بھی لیتے یا پھر یہ کہہ دینا کہ شہید ہوتے ہیں تو مراعات بھی ملتی ہے ۔
کبھی سوچا کتنا دل جگرا چاہیے ہوتا... اپنے ضعیف العمر والدین کو بیٹے کے بدلے سبز ہلالی میں جسدِ خاکی ملے... اپنے بیمار بچے کو چھوڑ کر جانا کیونکہ دفاع وطن سب سے بڑھ کر ہے...

شادی کے اگلے دن باڈر پر جانے کا پیغام مل جانا... یا جوان بیٹیوں کو ماں کا خیال رکھنے کا کہنے اور دماغ میں کہیں یہ بات ہو کہ آج یہ اس عمر کو پہنچ چکی کہ دوسرے گھر کو رخصت ہوں... اگر میں واپس نا آ سکا تو ان کی رخصتی پر شفقت بھرا ہاتھ کون رکھے گا....
کبھی سوچا کہ ان کا تو حلف ہے وطن پر قربان ہونے کا مگر یہ قربانیاں فوجی کا پورا گھرانا دیتا ہے...

وطن کا ہر شہری محفوظ رہے اس کے لیے جان دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔

(جاری ہے)

بغیر یہ سوچے کہ ان کے بعد ان کے بچوں کا نگہبان کون... کسی کا سہاگ نہ اجڑے, اپنے سہاگ کو قربان کر دیتے. جوان بیٹے اپنے والدین کا بڑھاپے میں سہارا رہیں,اس کی خاطر جواں سال اپنی جان داؤ پر لگا دیتے. یہ مٹی مقدم ہے, اس کی آن باقی رہے, اس کی خاطر ہر خطرے سے لڑ دیتے اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیتے۔

میرے لیے باعثِ فخر ہے یہ امر کہ میری رگوں میں خون بھی ایک فوجی کا دوڑتا ہے.

ہماری قوم کا بھی الحمد اللہ مان ہے ۔افواجِ پاکستان پر, آج یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے حالیہ شہادتوں کے تناظر میں بتا سکوں اس زندگی کا ایک پہلو۔
اکیس سال کی اس زندگی میں جہاں بہت سی باتیں اور نعرے فوج کے حق میں سنے وہاں اس کے خلاف بھی سنے،خون کھولتا ہے کہ حقیقت کا جن کو علم نہیں وہ کیسے یہ سب باتیں کر سکتے۔میں یہاں ایک فوجی کی زندگی نہیں رقم کرنے لگی بلکہ ایک فوجی کی بیٹی کی زندگی لکھ رہی۔
والد محترم فوج کا حصہ تھے.

بچپن جیسا ایک سنہری باب جو والدین کے ساتھ اچھا لگتا, ان کے بغیر زیادہ تر گزارا کیونکہ ان کا پیشہ ایسا تھا کبھی کہیں کبھی کہیں. کبھی سوچا ہے چار سال کی بچی اپنی سالگرہ کے دن گیٹ پر نظریں جمائے بیٹھی کہ شاید بابا آجائیں اور ہاتھ پکڑ کر کیک کٹوائیں ۔مگر آخر خود کاٹنا پڑے، رات کیسے ہچکیوں میں گزری ہوگی اس کی رو رو کر. کتنا مشکل ہوگا اس کے لیے جب بابا جانی کو آپریشن کے لئے رخصت کرے مسکراہٹ کے ساتھ کہیں وہ ہماری وجہ سے کمزور نہ پڑیں.

اس سے مشکل کیا ہوگا جب وہ کہیں اگر میں شہید ہو جاؤں تو مما کا خیال رکھنا اور بہن بھائیوں کی تعلیم مکمل ہونی چاہئے اور ہم جواباً مسکرا کر بس اتنا ہی کہہ سکتے جی بابا جانی۔
کتنا مشکل ہوتا ہے وہ لمحا جب ان کے زخمی ہونے کی اطلاع آتی ہے، معلوم ہوتا کہ وہ وطن کو اپنا سب کچھ سونپنا چاہتے ہیں،زندگی موت کی کشمکش میں ہیں اور اس وقت بھی آنسو نہیں بہا سکتے کہ ان کے الفاظ کا بھرم رکھنا ہے کہ کچھ ہو جائے رونا نہیں ہے۔
اتنی سی عمر میں وہ جذبہ جو ان میں ہے،ہم میں منتقل ہو جاتا ہے،وطن سے محبت اور جان قربان کرنے کا جذبہ وراثت میں ملتا ہے مگر خدارا ان کی قربانیوں کو چند پیسوں کا بدلہ کہہ کر ضائع نہ کریں۔ آپ کی ان باتوں کا ان پر فرق نہیں پڑے گا مگر جان لیں حصولِ آزادی سے مشکل ہے تحفظِ آزادی،اور یہ فوج کب سے یہ فرض نبھا رہی.

ان کی قربانیوں کو یوں ضائع نہ کریں. ان کا لہو اس مٹی میں شامل ہے, اپنی جانوں سے اس گلشن کی آبیاری کر رہے اور ہم ان کے مقروض ہیں۔
 افواجِ پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Watan Se Mohabbat aur jan qurban karne ka jazba is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 March 2020 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.