وزارت اعلی کے امیدوار وزیر اعلی سندھ سے خوفزدہ

سندھ میں نئی سیاسی صف بندی پاناما کیس کے دوسرے فیصلے تک موخرکردی گئی۔ تمام پاپولر سیاسی جماعتوں کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں سندھ میں مخالفین پیپلز پارٹی پر کاری وار کرنا چاہتے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے خلاف عوامی رابطہ مہم چلانے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔

ہفتہ 1 جولائی 2017

Wazarat e Ala K Umeed War wazir e Ala Sindh Se Khofzada
شہزاد چغتائی:
سندھ میں نئی سیاسی صف بندی پاناما کیس کے دوسرے فیصلے تک موخرکردی گئی۔ تمام پاپولر سیاسی جماعتوں کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں سندھ میں مخالفین پیپلز پارٹی پر کاری وار کرنا چاہتے ہیں ۔پیپلزپارٹی کے خلاف عوامی رابطہ مہم چلانے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔ دوسری طرف فنکشنل مسلم لیگ گرینڈ الائنس بنانے کیلئے پرتول رہی ہے۔

مختلف سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کی یلغار کا جواب دینے کیلئے نئی حکمت عملی بنارہی ہیں۔ سندھ کے بااثر خاندان سیاسی شخصیات اور جاگیردار بھی میدان سیاست میں مل کر پاناما کیس کے فیصلے کا انتظارکررہے ہیں۔ یہ فیصلہ جلد بھی ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ نے یہ معاملہ احتساب کورٹ کو روانہ کیا تو پھر کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی نے اپنے سیاسی کردار کے ذریعہ مسلم لیگ ن کو دھرنے میں بچایا تھا اس وقت یہ اطلاعات تھیں کہ 30اگست 2014ء پر سرکاری ٹی وی پر حملے کے بعد حکومت کو فارغ کردیا جائے گا۔

لیکن اس بار ایک جانب پیپلز پارٹی کا ایسا کوئی کردارموجود نہیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی حکومت کو بچانے کے حق میں ہے۔ پیپلز پارٹی مارچ 2018ء کے سینیٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے لیکن وہ جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے اور آئین سے ماورا اقدام کے خلاف ہے۔ حالانکہ جمہوریت کو اس وقت کوئی خطرہ نہیں لیکن عمران خان کا موڈ جارحانہ ہے۔

وہ سڑکوں پر آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی بڑھی تو بے یقینی بڑھ جائے گی سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ حکومت کو کوئی نہ کوئی قربانی تو دینا ہوگی۔ اب تک تو نچلی سطح پر ایثار کا مظاہرہ کیا گیا اور کئی وزراء را تحسین، طارق فاطمی وغیرہ کو گھر بیٹھنا پڑا۔ کوئی ناموافق فیصلہ نوازشریف کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا لیکن وہ اس کو قبول کرکے اپنی سیاسی اور قانونی جنگ کو موثر طور جاری رکھ سکتے ہیں۔

اس طرح مریم نواز باآسانی وزیراعظم بن سکتی ہیں اور حکمراں سیاسی شہادت کے رتبے پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اس بار سخت فیصلہ آئے گا۔پیپلز پارٹی کے تمام رہنما اس جانب اشارے کررہے ہیں جن میں خوابوں کے شہزادے اور سابق صدر کے دست راست منظور وسان شامل ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق سپریم کورٹ نے پاناما کیس کو احتساب کورٹ کے حوالے کیا تو مقدمہ تیسرے مرحلے میں داخل ہوجائے گا اور پاناما پارٹ تھری کے فیصلے میں کئی ماہ لگ جائیں گے ۔

7جولائی کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعدسپریم کورٹ کے پاس جو آپشن ہوں گے ان میں سے ایک ہوگا کہ عدالت خود فیصلہ دیدے اور کہانی ختم ہوجائے۔ ادھر سندھ کے مسلم لیگی حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن سمیت مختلف رہنماوٴں کے تیزی سے انخلاء کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اولین مفادات کی سیاست ہے کیونکہ سندھ کی بااثر اور اہم شخصیات اور جاگیرداروں کو یقین ہے کہ مسلم لیگ سندھ میں برسراقتدار نہیں آسکتی اور پیپلز پارٹی کی آئندہ حکومت کے قیام کو روک نہیں سکتی۔

اس لیے اقتدار کے بھوکے اور سرکاری چھتری کے خواہشمند سیاستداں جوق در جوق پیپلز پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ جس کے باعث پی پی پی کے جہاز میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی لیکن شمولیت اختیار کرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سندھ میں وفاداریاں بدلنے والوں کی کمی نہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے رہنماوٴں کو پیپلز پارٹی گلے لگارہی ہے جو صبح شام وفاداریاں بدلتے ہیں۔


ایک ہزار ارب روپے کے وسائل اورکراچی کی 100ارب ڈالر کی دولت پیپلز پارٹی کے پاس ہے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور سندھ کے دوسرے محکموں سے اربوں ڈالر کی نجی آمدنی بھی ہوتی ہے اس طرح آمدنی کے سرکاری اور نجی ذرائع میسر ہیں۔ حکومت اور منتخب نمائندے ہر سال 50 سے 60 ہزار نوکریاں بھی فروخت کرتے ہیں اور کاغذ پر دستخط کرنے کا کمیشن وصول کرتے ہیں۔

ایک ہزار ارب روپے وسائل رکھنے والا صوبہ اضلاع کو پھوٹی کوڑی نہیں دیتا۔ ضلعی مالیاتی ایوارڈ کااعلان 14 سال سے نہیں کیا گیاپیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے زیادہ تر رہنما تمام جماعتوں میں پھیرے لگا چکے ہیں۔ سب سے حیرتناک بات یہ ہے کہ ان سیاستدانوں کے دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے ہیں۔ اس دوران ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے درمیان قربت بڑھ گئی۔

کے یو جے کراچی کے ڈنر میں گورنر سندھ محمد زبیر عمر اور میئر کراچی وسیم اختر سرگوشیاں کرتے رہے جس کے بعد گورنر سندھ نے کراچی کے مینڈیٹ تسلیم کرنے اور میئر کراچی کو ساتھ لیکر چلنے کا اعلان کردیا۔گزشتہ دنوں گورنر سندھ میئر کراچی سے ملنے ان کے آفس گئے تھے جس کے بعد خیال کیا جارہاتھا کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کراچی آکر میگا سٹی کے کم از کم ایک ہزار کروڑ کے پیکج کا اعلان کریں گے لیکن پاناما کیس میں مصروفیات کے باعث وہ نہیں آسکے۔

لیکن ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کی دوستی برقرار ہے ۔ ایم کیو ایم نے پاناما کیس پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ بے جا بیان بازی سے گریز کررہی ہے ۔ پاناما کیس کو صرف پیپلز پارٹی اچھال رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی غیض و غضب کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ بجٹ کے موقع پر ایم کیو ایم نے صوبائی حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں کیوں نہیں لیا اور اس کے ارکان ایوان میں بھیگی بلی بن کر کیوں بیٹھے رہے۔


چند روز پہلے جب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں کھڑے ہوکر یہ کہا تھا کہ یہ اسمبلی مدت پوری نہیں کرسکے گی تو سیاسی حلقوں نے ان کے بیان کو مختلف معنی پہنائے تھے۔ وزارت اعلیٰ کے امیدواروں کا خیال تھا کہ وزیراعلیٰ نے ان کو سخت پیغام دیاہے اور وارننگ دی ہے کہ ان کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تووہ اسمبلی توڑ دیں گے۔ وزارت اعلیٰ کے امیدواروں نے یہ تاویل بھی دی تھی کہ مرادعلی شاہ نے یہ پیغام پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیا ہے۔

اس دوران پیپلز پارٹی کے حلقوں میں یہ باتیں ہوتی رہیں وزیراعلیٰ سندھ نے مزاحمت کا فیصلہ کرلیا لیکن عید سے ایک روز قبل وزیراعلیٰ نے اپنے گاوٴں میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاناما کے فیصلے سے ملک بہت متاثر ہوگا اور وزیراعظم نااہل ہوسکتے ہیں۔سندھ میں وزارت کے امیدواروں نے مرادعلی شاہ کے خلاف سازشوں کے جال تو بچھادیے لیکن وہ وزیراعلیٰ سندھ سے خوفزدہ بھی ہوگئے کہ وہ کسی کے اشارے پر اسمبلی نہ توڑ دیں اور اربوں ڈالر کا دال دلیا ہاتھ سے جاتارہے۔

پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو کئی بار کہا گیا کہ وہ پارٹی کی قیادت سے لاتعلق ہو جائیں گے لیکن قائم علی شاہ کے اسٹیک بہت زیادہ تھے ان کے بچے داماد سرکاری نوکر اور صاحبزادی سیاست میں ہیں۔ مراد علی شاہ کا کچھ دآ پر نہیں ان کو سندھ کا سب سے بڑا عہدہ مل گیا صوبہ میں اس سے بڑا عہدہ نہیں۔دریں اثناء جمعة الوداع اور یوم القدس کے موقع پر کراچی بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔

دہشت گردوں نے سائٹ‘ حبیب بینک چورنگی پر تین کانسٹیبلوں اور ایک اے ایس آئی کو اس وقت شہید کیا جب وہ روزہ کھول رہے تھے۔ کراچی غربی کا علاقہ برسوں سے شدت پسندوں کی جنت بنا ہوا ہے۔ اس علاقے میں کچھ عرصے قبل رینجرز کے 4سپاہیوں کو بھی فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Wazarat e Ala K Umeed War wazir e Ala Sindh Se Khofzada is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 July 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.