مقتول

پیر 4 جنوری 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

ریاست مدینہ میں یہ ہوتا تھا کہ  خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کی۔ آپ ؓ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر پہرا دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔ کہتے تھے اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی، یہ ماڈل تھا ریاست مدینہ کا جس میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے تھے، خود خلیفہ وقت سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سو جایا کرتے تھے، انکے دور خلافت میں کسی پر ظلم کرنا تو کیا سوچنا بھی جرم تھا، انکی خلافت کو دیکھتے ہوئے عیسائی ہم سے آگے نکل گئے لیکن ہم بد قسمتی سے اسلام کے نام پر بنانے والی ریاست میں بھی عدل قائم نہ کر سکے، ہم پر ظلم ہوتا رہا ہم سہتے رہے اور آج یہ نوبت آچکی ہے کہ ہم ظلم کے خلاف بول بھی نہیں سکتے، لیکن  ظلم سہنا اس پر خاموش رہنا ظالم کی مدد کرنا ہے ظالم کا حوصلہ بڑھتا ہے اور مزید ظلم کرتا ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اسکے سامنے بغاوت کرنے سے ہی ظلم کا خاتمہ ممکن ہے  ظلم برداشت کرنے کی شریعت بھی ہر گز حمایت نہیں کرتی کبھی بھی ایسے لوگوں کو یاد نہیں رکھا جاتا جو ظلم سہتے ہیں ہمیشہ ایسے لوگوں کے نام جلی حروف میں لکھے جاتے ہیں جو ظلم کے خلاف لڑتے ہیں،
سانحہ ماڈل ٹاؤن جو پنجاب پولیس اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے درمیان میں 17 جون 2014ء کو ہوا، جس کے نتیجے میں پولیس کی فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے دو عورتوں سمیت 14 افراد شہید اور 90 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔

(جاری ہے)

11 گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب پولیس کی تجاوزات ہٹانے والی نفری نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں جامعہ منہاج القران کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے بانی و سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر موجود رکاوٹیں ہٹانے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا۔
جس میں اس وقت بارہ تھانوں کی پولیس کی مدد سے رات دو بجے سے جاری آپریشن میں کل چار حملے کیے گئے۔

پہلے تین حملوں میں زہریلی آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، جبکہ آخری حملے میں سو سے زیادہ لوگوں پر سیدھے فائرنگ کی گئی اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی قاتلوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے لیکن کسی کو سزا نہ ہوئی، جب یہ آپریشن جاری تھا تو دوسری طرف مختلف ٹی وی چینلز کے کیمروں کی آنکھ نے ایک شخص کو دیکھا۔ تحریک منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ کے باہر غارتگری کرنیوالا ایک سادہ لباس شخص، جس نے ہاتھوں میں ڈنڈا تھاما ہوا تھا۔

پہلے وہ اہلکاروں کو جوش دلاتا رہا پھر ایک دھاوا بولا کہیں گاڑیوں کے شیشے توڑے تو کہیں دکان سے لوٹ مار کی۔۔ یہ آدمی بعد میں گلو بٹ کے نام سے شناخت کیا گیا؛ بعد میں مختلف میڈیا رپورٹس سے پتہ چلا کہ گلو بٹ کوئی اور نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کا ایک کارکن ہے، لیکن کیا ہوا اپوزیشن نے اس مسئلہ کو اٹھایا پولیس کو پکڑا لیکن پھر یہ فائل بھی کہیں نیچے دب گئی، کچھ عرصہ تک سوشل میڈیا پر بھی ظلم کا نعرہ لگا لیکن پھر عوام بھول گئی اور ظلم کو بڑھاوا ملا، اس کے بعد پولیس گردی کا واقعہ جنوری 2019ء کو پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے پاکستان کے شہر ساہیوال کے قریب ایک شاہراہ پر      اشیائے خور و نوش کی ایک دکان کے مالک محمّد خلیل، ان کی زوجہ نبیلہ، ان کی 13 سالہ بیٹی اریبہ اور ان کے دوست ذیشان جاوید کو صرف شک کی بنیاد پر شہید کیا ان کا بیٹا عمیر خلیل گولیاں لگنے سے زخمی ہوا، شک کی بنیاد پر ہماری بہادر پولیس نے ایک ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا لیکن اس بار انصاف کے علمبردار جناب وزیراعظم عمران خان کی حکومت تھی ہمیں یقین تھا کہ تحریک انصاف جماعت اس مسئلہ کو اوپر تک لے جائیں گے اور پولیس گردی کرنے والوں کو سزا ملے گی، لیکن ہم غلط تھے وہی ہوا جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ہوا تھا ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے رہا کر دیا گیا،
یاد رکھیں جب تک کوئی شخص ظلم کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا تو وہ خود بھی ظالم کہلاتا ہے اور پھر وقت بدلتا ہے اور برا وقت سب پر آجاتا ہے پھر ہم سب روتے ہیں لیکن رونے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ظلم کو روکنے کی ہمت پیدا نہ ہو،
ہماری پولیس جو ہمارے محافظ ہوتے ہیں یہی ہماری جانیں لے لیتے ہیں کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شکل میں کبھی سانحہ ساہیوال اور کبھی راؤ انوار جیسے کرپٹ شخص کی صورت میں یہ پولیس ہمیں مارتی ہے اور ہم مرتے رہیں گے جب تک کوئی ایک شخص اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرے گا،
21سالہ اسامہ ندیم ستی کا تعلق کوٹلی ستیاں سے تھا اور اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر تھے۔

وہ اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اسامہ نے بینک سے قرضہ لے کر گاڑی خریدی تھی وہ فارغ وقت میں گاڑی چلاتا تھا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب جی 10 سگنل کے قریب پولیس کے روکنے پر گاڑی نہ روکنے پر ہماری بہادر پولیس کی طرف سے اسامہ کی گاڑی پر مختلف اطراف سے تقریباً 17 گولیاں چلائی گئیں جس میں سے 6 گولیاں ونڈو اسکرین سے ماری گئیں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق اسامہ ستی کے جسم میں 6 گولیاں لگیں ہیں ایک سر کے عقبی حصے ایک بائیں بازو اور 4 اسامہ ستی کی پیٹھ میں لگیں،  سامنے سے گولیاں مارنے کا مقصد صرف ٹارگٹ کلنگ ہے،
اسامہ کے والد ندیم ستی نے بتایا کہ ’اسامہ بہت اچھا اور پیارا بچہ تھا، میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔

اگر ہمیں انصاف نہیں ملتا تو آج میرا بیٹا شہید کیا ہے کل کسی اور کا ہوگا  یہ کام رکے گا نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے سنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اسے دھمکی دی تھی، اب دیکھیں یہ دھمکی والا ہی سلسلہ لگتا ہے،
اسامہ ستی کو شہید کرنے والے ہمارے محافظ انسداد دہشتگری فورس سے ہیں ان ملزمان پر دفعہ 302 اور دہشتگردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

لیکن کیا ہو گا چند دن لوگ میڈیا پر اس مسلئے کو اٹھائیں گے لیکن پھر خاموشی چھا جائے گی کیوں نا ہم کوئی ایسا طریقہ اپنائیں کہ جب تک قاتل کیفر کردار تک نہیں پہنچتے تب تک ہماری قوم آواز بلند کرتی رہے، جیسے زینب کیس میں ہماری قوم اور قانون نے ساتھ دیا تھا، لیکن کیا کریں جب آج تک سانحہ ماڈل ٹاؤن سانحہ ساہیوال کا کچھ نہیں بنا تو اسامہ ستی کیس کا کیا بنے گا ہم خود کرپٹ ہیں ہم ظلم کے خلاف بولنا ہی نہیں چاہتے ہم بس سر نیچے کیے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں ہمیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے محافظ ہی ہمارے قاتل بن جائیں، ہم چپ رہیں گے تو یاد رکھیں ہماری جانیں جاتی رہیں گی، ہم اپنی ذات سے جتنا ہو سکتا ہے اس موضوع پر آواز بلند کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ اس واقعہ پر ایکشن لیں اور سزا دیں، ورنہ کل اسامہ ستی کی جگہ میں، آپ، اور ہمارے بہن بھائیوں میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے لیکن اگر آج ہی ہم ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا مصمم ارادہ کر لیں تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں ہم مستقبل میں  ماڈل ٹاؤن، ساہیوال اور اسامہ ستی جیسے لوگوں کے جنازے نہیں اٹھائیں گے، لیکن اگر ہم خاموش رہے تو یہ ظلم بڑھتا جائے گا ہمارے محافظ ہی ہمارے قاتل بنتے رہیں گے پولیس کو محافظ بنایا جاتا ہے لیکن جب ایسے ادارے ہی ظلم کرنے لگ جائیں تو پھر یاد آتا ہے کہ ریاست مدینہ تو ایسی نہ تھی۔

۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری رہبری کا سوال ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :