تعفن زدہ نظام

پیر 8 نومبر 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

بعض پولیس والے اور عدالت میں موجود لوگ مجھے گندی نظروں سے دیکھتے ہیں، میں بہت چھوٹی تھی مجھے واقعے کی سمجھ نہیں تھی کہ وہ میرے ساتھ کیا کررہے تھے، مجھے باندھ کر رکھا گیا اور وہ مارتے بھی تھےیہ الفاظ ایک 12 سے 13 سالہ لڑکی کے تھے، جسے 3 سال قبل کراچی میں قائم ایک کچی بستی سے اغوا کیا گیا اور سندھ کے دور دراز علاقے میں اس کا 2 ماہ سے زائد عرصے تک گینگ ریپ کیا گیا۔

(جاری ہے)

ملزمان پکڑے گئے پھر چھوٹ بھی گئے لیکن کیا وہ بچی اپنی زندگی بھر پور انداز سے گزار سکے گی اس کے والدین معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکیں گے یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہو گا میرا بھی یہی ماننا ہے اس بچی اور اس کے والدین کو اس معاشرے میں جینے کا کوئی حق نہیں یہاں پر سب نیک اور پاکیزہ لوگ رہتے ہیں،
میں عموماً طنز سے گریز کرتا ہوں انسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ سچ کہہ سکے آپ سچ کہہ دیں اس کے بعد دیکھیں کہ کتنی سچائیاں باہر آتی ہیں، ہمارا معاشرہ جس میں آپ اوپر سے دیکھنا شروع کر دیں یا نیچے سے تو آپ کو اکا دکا لوگ ٹھیک نظر آئیں گے باقی سب اس گندے نظام کا حصہ یا تماش بین ہیں ہمارے ملک میں ہم سب اس تعفن زدہ نظام میں لتھڑے ہوئے ہیں،  مسلمانوں کا خلیفہ دوم رومن ایمپائر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والےعمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوری سیرت اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو دو چیزیں ملیں گی عدل وانصاف اور صرف عدل و انصاف کی بدولت دنیا میں جب بھی کہیں کسی گھر کسی فرد کسی ملک کسی عدالت کے دروازے پر  انصاف کے لیے دستک دی جاتی ہے تو منہ سے پہلا نام عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نکلتا ہے، ایک بار بیٹھے تھے زمین ہلنے لگی زلزلے سے دروبام لرزنے لگے حضرت عمر نے زمین پر درہ مارا اور کہا کیا عمر تجھ پر بیٹھ کر عدل نہیں کرتا؟ فوراً زلزلہ تھم گیا زمین ساکت ہو گئی زمین کیوں ساکت ہوئی وجہ صرف عدل ہے،دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فضائیہ کے طیارے برطانیہ پر بمباری کر رہے تھے اس طرح سے ملک کو تباہ کر دیا کہ عوام کو مر جانے کا خوف موسم کی شدت سر ڈھانپنے کو چھت نہیں ہر طرف سے مایوس عوام ونسٹن چرچل سے سوال کرنے لگی چرچل نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا ہماری عدالتیں انصاف مہیا کر رہی ہیں جواب ملا جی ہاں ہماری عدالتیں بالکل ٹھیک کام کر رہی ہیں عدلیہ کی طرف سے انصاف کیا جا رہا ہے چرچل نے شکر ادا کیا اور کہا ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی،
مجھے اس بچی کے لفظوں نے اندر تک جھنجھوڑ کر دیا کہ عدالت میں لوگ بری نظروں سے دیکھتے ہیں تھانے کے اہلکار بھی عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں میں اس نظام اس عدلیہ سے صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ انصاف نہ دے سکیں چلیں انصاف تو الگ بات ہے کیا ہم اس قابل بھی نہیں کہ ان لوگوں کی آنکھیں نوچ سکیں جو اس مظلوم بچی کو گھورتی ہیں،ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کا ہے ہم ایک مظلوم کو انصاف نہیں دے سکتے، ہمارا قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں چھوٹے چھوٹے حشرات پھنس جاتے ہیں اور بڑے کیڑے مکوڑے اس جالے کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں، ہم اخلاقیات کے لحاظ سے اس قدر تنزلی کا شکار ہیں کہ ہم چور کو ہیرو سمجھتے ہیں ہم غنڈوں کو بہادر سمجھتے ہیں ہم جھوٹے کو چالاک سمجھتے ہیں ہم دودھ میں ملاوٹ کرتے ہیں ہم کپاس میں نمک ڈال دیتے ہیں ہم سرخ مرچوں میں اینٹیں پیس کر ملا دیتے ہیں ہم چند پیسوں کے لیے عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دے آتے ہیں ہم کسی نوجوان کو اغواء کر کے اس کا پیٹ چیر کر گردہ نکال لیتے ہیں  ہمارے ہسپتال موت کے سوداگر ہیں ہمارے ڈاکٹر مریض کو مرتا چھوڑ کر اپنی فیس طے کر رہے ہوتے ہیں ہمارے تھانے رشوت لے کر مجرم چھوڑ دیتے ہیں ، میں کیا کیا لکھوں میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟ ہمارے سیاستدان ہمارے ساتھ مخلص نہیں ہم خود اپنے ساتھ مخلص نہیں ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ بد دیانتی کرتے ہیں ہم اپنی بہنوں کے حق کھا جاتے ہیں ہم میں سے ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو بہنوں کی شادی اس لیے نہیں کرتا کہ جائیداد میں سے حصہ دینا پڑے گا ہم قرآن مجید کی جھوٹی قسمیں اٹھا لیتے ہیں ہم دو سال کی بچی سے لے کر ساٹھ سال کی عورت کی بے حرمتی کرتے ہیں ہماری گلیوں میں کھیلتے بچے محفوظ نہیں ہیں،
آپ اندازہ نہیں کر سکتے میں کس تکلیف کس کرب سے گزر کر یہ لکھ رہا ہوں مجھے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے جب میں اپنے ملک میں ہر طرف اخلاقیات کا جنازہ نکلتے دیکھتا ہوں میں خود کو قصوروار سمجھتا ہوں جب میں اس میں بہتری کے لیے کچھ کر نہیں سکتا مجھے خود سے گھن آنے لگتی ہے جب میں خود کو اسی معاشرے کا حصہ سمجھتا ہوں میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ وہی اسلام ہے جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا جو ان کی تعلیمات تھیں کیا ہم ان کو پورا کر رہے ہیں کیا ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں نہیں ہر گز نہیں ،میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ کسی کا حق نہ کھاؤ ناپ تول میں کمی نہ کرنا رشوت نہ لینا جھوٹ نہ بولنا ظلم نہ کرنا، اور ہم آج کیا کر رہے ہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں آپ کسی دن اپنے گھروں سے نکل کر اندرون شہروں کے چکر لگائیں آپ کو ویلے فارغ لوگ اس قوم کا سرمایہ نوجوان نسل گلیوں کے باہر تھڑوں پر بیٹھی نظر آئے گی کچھ کسی فٹ پاتھ پر بد حالی کے عالم میں مدہوش نظر آئیں گے قریب جا کے علم ہو گا کہ اسے نشے کی لت ہے وہ اپنی جوانی برباد کر رہا ہے، ہمارے یہی ویلے نکمے لوگ ایک بریانی کی پلیٹ پر سیاست دانوں کے جلوسوں میں چلے جاتے ہیں کچھ اور نہ سہی چلو تماشہ ہی لگا آتے ہیں یہ ان کی سوچ یہ ان کا نظریہ ہے، میں سمجھتا ہوں ہمیں اس تعفن زدہ ماحول سے نکلنا ہو گا ہمیں کچھ کرنا ہو گا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ہو گا لیکن کیسے اس کے لیے اس نظام کو بدلنا ہو گا اور یہ نظام ایسے تبدیل نہیں ہو گا آپ ایک سو ایک عمران خان لے آئیں آپ ماہرین لے آئیں لیکن جو ذلت ہمارے مقدر میں ڈال دی گئی ہے وہ ختم نہیں ہو گی جو ماحول ہمیں مل چکا ہے جو تباہ کاریاں اس گلے سڑے نظام نے کر دی ہیں وہ ایسے ختم نہیں ہوں گی ہم اس نظام کو بدلنا ہی نہیں چاہ رہے ہم اس دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں اور مدد الٰہی کے منتظر ہیں کہ کوئی فرشتہ آئے گا اور ہمیں اس نظام سے نکال کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کر کھڑا کر دے گا ایسا ممکن نہیں ہے ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہو گا ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی انفرادی سطح پر صرف خود کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے یا پھر ایک بار اس پورے تعفن زدہ نظام کو تیزاب سے غسل دے کر نیا بنانے کی کوشش کی جائے پاکستان زندہ باد،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :