سول اور عسکری قیادت ایک پیج پر ؟؟

اتوار 2 ستمبر 2018

Abdul Hanan Chaudhry

عبدالحنان چوہدری

وطن عزیز کے قیام کو سات دہائیاں بیت گئیں مگر جی ایچ کیو اور ایوان وزیراعظم کی کھینچا تانیوں کا سلسلہ جوں کا توں رہا وزرائے اعظم آتے رہے اور جاتے رہے مگر سول اور عسکری اداروں میں ایک خلیج ہمیشہ قائم رہی حالانکہ بظاہر اس امر کی مکمل نفی کی جاتی رہی۔ میاں محمد نوازشریف کے وزارت عظمی کے دور میں جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے واقفان حال بیان کرتے ہیں جب جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بننے کے بعد وزیراعظم سے ملنے کیلئے آئے تو انہیں واک تھرو گیٹ سے گزار کر میاں نوازشریف تک لے جایا گیا اور وزیراعظم کے خصوصی احکامات تھے کہ چیف کیپ پہن کر آئیں تاکہ سیلوٹ کرنا پڑے اسی طرح میاں نوازشریف کے سامنے ملک کے سب سے مقتدر ادارے کو سربراہ کو جس طرح بٹھایا گیا اس کا مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ پاکستان میں ملٹری بالادستی اور فوج کے رعب اور دبدبے کا زمانہ رخصت ہورہا ہے اب جمہور ہوگا اور جمہوریت ہوگی مگر پس پردہ کچھ اور ہی چل رہا تھا ٹویٹ کا ایشو بنا ،ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا ،مرد کا بچہ ،مشرف کا ٹرائل سمیت مسلم لیگ ن کی حکومت نے کئی محاذوں پر ایک ساتھ نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کرلیا حکومتی منصوبہ بندی کے اہم کردار پرویز رشید تھے جو براہ راست مریم نواز کو بریف کرتے تھے جبکہ عرفان صدیقی میاں نوازشریف کو گرما گرم تقریریں لکھ کر دیتے تھے اسی رسہ کشی کے کھیل میں ن لیگ کی حکومت کے عسکری قیادت سے تعلقات میں ایک بار پھر دراڑ آگئی مگر میاں صاحب کی گرفتاری کے بعد شہبازشریف نے حسب سابق حسب توفیق ہاتھ پاوں مارے مگر بات نہ بن سکی الیکشن ہوئے پی ٹی آئی کو برتری ملی اور آج عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سے جی ایچ کیو تشریف لے گئے جہاں وزیراعظم پاکستان کا زبردست خیر مقدم کیا گیا آٹھ گھنٹے طویل دورے میں وزیراعظم کو روایت سے ہٹ کر غیر معمولی پروٹو کول دیا گیا ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جی ایچ کیو میں آرمی چیف وزیراعظم کے برابر بیٹھنے کی بجائے لیفٹینٹ جنرل کے ساتھ بیٹھے اور وزیراعظم نے اجلاس چیئر کیا ۔

(جاری ہے)

جی ایچ کیو کے دورہ کے دوران وزیراعظم نے نماز ادا کی آرمی چیف کے ساتھ لنچ بھی کیا جبکہ وزرا نے دیگر فوجی افسران کے ہمراہ لنچ کیا بریفنگز کے سیشنز ہوئے یادگار شہدا پر حاضری ہوئی آج وہ تمام سرکاری بیانات جو دیئے جاتے تھے کہ سول عسکری تعلقات مثالی ہیں عملی اعتبار سے بھی دیکھنے کونظر آئے موجودہ حکومت سے عوام کی بڑی امیدیں ہیں اگر یہ خدانخواستہ ناکام ہوئی تو عوام مایوس ہوں گے اللہ کرے سول اور فوجی تعلقات اسی طرح بہتر رہیں تاکہ ملک ترقی کرسکے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹ سکے وقت کا تقاضا یہی ہے حالات کی نزاکت بھی یہی ہے کہ تمام ریاستی ادارے مل کر ملک و قوم کی حالت بہتر بنانے کیلئے کام کریں ۔
خدا اس ارض وطن کو سلامت رکھے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :