ننھے مزدور

جمعرات 4 جون 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

1982ء سے 4 جون کو جارحیت کا شکار معصوم بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد بچوں کے حقوق کا تحفظ اور اس مسئلہ کے حوالے سے لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہے جس طرح پھول کسی بھی باغ کی رونق اور زینت کا سبب ہوتے ہیں اور اگر یہ پھول مرجھا جائیں تو باغ  کی رنگ و رونق ختم ہو جاتی ہے اور ویرانی کا سایہ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اسی طرح بچے بھی کسی قوم کی رونق اور روشن مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں جنگ ہو یا قدرتی آفات یا پھر گھریلو تنازعات ان سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے معاشرے کے فریق معصوم بچے ہی ہوتے ہیں۔

بچے کسی بھی خاندان کے نادان، نہ سمجھ اور ناواقف رکن ہوتے ہیں اور خاندان کے باقی افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت دیں اور بڑوں کی عزت و ادب کی اہمیت سے روشناس کروانے کے علاوہ انہیں معاشرے کے اچھے اور برے لوگوں میں تفریق کرنا سکھائیں انہیں بتائیں کہ کون ان کا اپنا ہے اور کون پرایا کون ہمدرد ہے اور کون دشمن کیونکہ معصوم بچوں کو کیا خبر کہ ہمارا معاشرہ درندہ صفت انسانوں سے بھرا پڑا ہے جنہیں ان نازک پھولوں کی معصومیت پر رتی برابر بھی ترس نہیں آتا یہ درندہ صفت انسان بس ہوس کے پجاری ہیں اور اخلاقیات اور انسانیت نام کی ان میں کوئی چیز ہی نہیں۔

(جاری ہے)


ویسے تو ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل ہیں جو بچوں کے حقوق اور ان کے مستقبل کی تباہ و بربادی کا سبب بن رہے ہیں لیکن ان میں سے چند اہم مسائل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ غربت کی وجہ سے بچے تعلیمی اداروں کا رخ کرنے کی بجائے ورکشاپس، فیکٹریوں اور کارخانوں کا رخ کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان اور فلاسفرز کم اور ننھے مزدور زیادہ نظر آتے ہیں اور کچھ معصوم تو نبض کے رکنے کے ڈر سے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں لیکن دنیا بھر میں تعلیمی ادارے تو با کثرت بنائے جارہے ہیں لیکن ان ننھے مزدوروں و بھکاریوں کی غربت اور ان پر ہونے والے ذہنی و جسمانی تشدد کا کوئی حل نہیں نکالا جا رہا اب جب معصوم بچوں کے پاس سانس کی بحالی کے لیے گندم نہیں ہوگی تو وہ بلاشبہ گندم کو تختی پر فوقیت دیں گے اس تلخ حقیقت پہ تو بس یہی شعر یاد آتا ہے...
وہ جسکا ایک ہی بیٹا ہو، بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاو اہلِ دانش تم، وہ گندم لے یا تختی لے
دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر بچوں پر جنسی تشدد کے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں کبھی انہیں درندے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا کر کچرے میں پھینک رہے ہیں تو کبھی انہیں گڑھا کھود کر زمین میں گاڑھ رہے ہیں جیسا کہ قصور کی زینب کے ساتھ ہوا جب تک ان درندوں کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان نہیں بنایا جائے گا زینب جیسے کئی پھول مرجھاتے رہیں گے اور بالآخر سارا کا سارا چمن اجڑ جائے گا۔


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: یا رسول اللہ! میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

‘‘
دہشت گردی بھی بچوں کے روشن مستقبل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اگر ہم ملک خداداد پاکستان کی بات کریں تو آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کے ساتھ جو ظلم ہوا اسے بیان کرتے ہوئے تو لوگوں کے جسموں پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں دہشتگرد تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں خصوصاً سوات میں بہت سارے سکولوں کو دھماکوں سے اڑا دیا گیا اور آج بھی بہت سارے بچے ملبے کے ڈھیر تلے اپنی کرسیاں، بینچ اور کتابیں تلاشتے ہیں۔


صرف دن منانے، سیمینارز، واکس اور دیگر تقریبات کرنے سے اس جارحیت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا اگر ہم حقیقی معنوں میں معصوم  بچوں کے حقوق کا تحفظ اور انہیں ذہنی و جسمانی تشدد سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پوری دنیا کو غربت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس جارحیت میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کرنا ہونگے اور ایک ایک کر کے ہر شخص کو نشان عبرت بنا کر اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا صرف اسی صورت میں بچوں کے روشن مستقبل کی راہ ہموار گی اور ننھے مزدور ورکشاپس، فیکٹریوں اور کارخانوں کی بجائے تعلیمی اداروں کا رخ کریں گے اور دنیا جو کہ ایک اجڑا چمن بن چکی ہے، رنگینیوں کا محور بن جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :