چڑھائی،پسپائی، لڑائی

جمعہ 15 فروری 2019

Ahmed Khan

احمد خان

کاروبار اسمبلی کس طر ح سے چل رہا ہے ، حزب اختلاف کے احباب اسمبلی میں تشریف لا تے ہیں ، حکومت پر لفظوں کے تیربر ساتے ہیں اور چلے جاتے ہیں جواباً حکومت کے سر خیل کھڑ ے ہو جا تے ہیں اور بے تکان حزب اختلاف کی ” کلاس “ لینی شروع کر لیتے ہیں ، کھینچا تانی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا نے کے سوا ایوان زیریں میں کچھ نہیں ہو رہا۔
بات یہی پر ختم نہیں ہو تی ، ایوان زیر یں میں ایک دوسرے پر تابڑ تو ڑ لفظی حملوں کے بعد معاملہ پر یس کانفرنس پھڑکا نے تک جاتا ہے ایک دوسرے کے خلاف دھواں دار طرز کی پر یس کانفرنس ہو تے ہیں ، اخلاقیات کو پس پست ڈال کر ایک دوسرے کی جس حد تک ممکن ہو کھا ل اُتا ری جا تی ہے ، اس کے بعد بھی جو کسر رہ جاتی ہے وہ ٹی وی پروگراموں میں پوری کر نے کی بھر پو ر سعی کی جاتی ہے ، لگے اریب قریب چھ ماہ صرف یہی بچہ جمہورا کا کھیل عوام دیکھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

سیاسی محاذ آرائی میں تیزی آنے سے ملک کا سیاسی درجہ حرارت کا گراف بلند تر ہو تا جا رہا ہے ، حکومت اور حزب اختلاف کے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ پرا نے پاکستان کی سو غات گردانی جاتی تھی ، اچنبے کی بات مگر یہ ہے کہ نئے پاکستان میں بھی سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا نہیں بھو لے ، حکومت اور حز ب اختلاف کی جماعتوں میں جاری محاذ آرائی کا انجام کیا ہوگا ، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ، سابقہ ادوار میں البتہ سیاسی جماعتوں کی میں نہ مانوں کے فلسفے اور طر زعمل نے ہمیشہ جمہو ریت کا گلا گھونٹا ، کل کلا ں مسلم لیگ ن اور پی پی پی میں سیاسی دھینگا مشتی پاکستانی سیاست کا طر ہ امتیاز تھی۔

حالیہ عہد میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور پی پی پی باہم دست و گریباں ہیں ، گویا پاکستانی سیاست میں ایک دوسرے پر چڑھ دو ڑنے کی رسم ختم ہو نے کے بجا ئے توانا ہو تی جارہی ہے ، سابقہ ادوار میں سیاسی محاز آرائی اور سیاسی عدم برداشت سے جہاں ملک و قوم اور جمہو ریت کو ناقابل تلا فی نقصان پہنچا ،وہاں اس عادت بد سے عوام کے مسائل بھی جو ں کے تو ں رہے ۔

 مو جودہ محاذ آرائی میں بھی عوام کے مسائل کی جانب کسی کی توجہ نہیں ، حکومت وقت اپنے سیاسی مخالفین کو روندنے کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ دکھا ئی دیتی ہے ، جہاں تک حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے۔
عوامی حقوق کے دعوے دار یہ جماعتیں بھی بس تنقید برا ئے تنقید تک خود کو محدود کیے ہو ئے ہیں ، قلیل المیعاد میں حکومت وقت نے کئی ایک ایسے فیصلے صادر کیے جن کی وجہ سے عوام کو شد ید مشکلات کا سامنا ہے لیکن حکومت کے ان عوام دشمن فیصلوں پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے وہ شور بر پا نہیں کیا جس کی تو قع عوامی حلقے کر رہے تھے ، ہو کیا رہا ہے ، حکو مت وقت اپنی ساری طاقت اور قوت حزب اختلاف کے ساتھ ” سیاسی ملا کھڑا “ پر صرف کر ر جناب شیخ رشید ، فواد چو ہدری اور مراد سعید حزب اختلاف کی دم پر سے پا ؤں ہٹا نے کا نام نہیں لے رہے ، جواباً مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی جانب سے سیاسی گو لہ باری کا سلسلہ بھی عرو ج پر رہتا ہے ، سیاسی تو تو میں میں کی اس کیفیت میں پاکستان کی سیاسی افق پر بے یقینی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، سینہ گزٹ کبھی وفاق کے چلتا ہو نے کی خبریں پھیلاتا ہے ، کبھی پنجاب حکومت کے ” چاند دنوں “ کی پیش گو ئی خبروں کی زینت بنتی ہے ، سیاسی کشا کش کے اس ماحول میں جمہو ریت کے سر خیل کیا گل کھلا ئیں گے ، کو ئی حتمی طور پر اس کی پیش گو ئی کر نے سے قا صر ہے ، اصل مد عا مگر یہ ہے، سیاسی محاذ آرائی سے پہلے بھی جمہو ریت کا بو ریا بستر گو ل ہو تا رہا ،اگر اب بھی سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ اسی طر ح جا ری و سا ری رہتا ہے ، دیکھ لیئجے اس کے نتائج بھی جمہو ریت کش ہی نکلیں گے ، حکومت کو عوام کے فلا ح کے لیے اپنی توانیاں صرف کر نی چا ہیے اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو عوام میں سیاسی بیداری کے لیے اپناکر دار ادا کر نا چا ہیے ، مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے، حکومت وقت عوام کی خدمت سے زیادہ حزب اختلاف کو ” جھٹکا “ دینے کے لیے سر گر م ہے اب حکومت کے اعلی دما غوں بھلا کو ن سمجھا ئے کہ حکومت کی نیک نامی اخباری بیانوں اور ” سیاسی ملا کھڑا “ سے نہیں بلکہ اس کے ”اعمال “ سے ناپی جا تی ہے ، سو حکومت وقت کو پو ری دل جمعی سے عوام کی خدمت پر توجہ مبذول کرنی چا ہیے ، جہاں تک حز ب اختلاف کی سیاسی پر دھا نوں کا تعلق ہے ان کا کام ہی حکومت وقت پر تنقید کر نا ہے ، ہونا کیا چا ہیے سیاست کے دونوں مجاور وں کے اپنے اپنے طور پر عوام کی خدمت کے لیے کو شا ں ہو نا چا ہیے۔

ہما رے ہاں مگر ایسی سیاسی اور جمہو ری روایات ابھی تک راسخ نہیں ہو سکیں ، یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست میں چڑھا ئی ، پسپائی اور پھرآپس میں لڑا ئی جمہوریت کا لا زمی جز گر دانا جا تا ہے ، کل کا حال اللہ جا نے اس وقت مگر وطن عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :