” آئی ایم ایف کے قر ضے نے مجھے آگے لگا رکھا ہے “

ہفتہ 7 ستمبر 2019

Ahmed Khan

احمد خان

حکومت وقت نے اب تک کے اپنے عہد میں اگر کو ئی کا م ڈھنگ سے کیا ہے وہ عوام کی جیبوں کو خالی کرنے کا کیا ہے ، لگے ایک سال میں ٹیکسوں کی بھر مار نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے ، روز مر ہ زندگی کی کو ئی شے ایسی نہیں جس کی قیمت میں عوام کی نما ئندہ حکومت نے بے تحاشا اضافہ نہ کیا ہو ، آٹا مہنگا ، دال مہنگی ، چینی مہنگی ، دوائیاں مہنگی ،سفر مہنگا ، رہن سہن مہنگا ، تعلیم مہنگی ، یعنی عوام سے لگ کھا نے والی ہر چیز کو حکومت وقت نے آگ لگا رکھی ہے ،دوسری جانب ٹیکس کے نام پر عوام کی زندگیاں الگ سے اجیرن کر دی گئیں ،اس تمام تر صورت حال پر سوال کر یں تو جواب کیا ملتا ہے ، سابق حکومتوں کا کیا دھرا ہے ، سابق حکومتوں کی وجہ سے عوام پر بوجھ ڈالنا مجبوری ہے ، سابق حکومتوں کی سیاہ کر توتوں کی سزا عوام کو بھگتنا پڑ ے گی ، حضور سابق حکومتوں کے سیاپے سے جان چھڑانے کے لیے عوام نے اقتدار آپ کے حوالے کیا ہے اور یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ عوام سے ووٹ لینے کے لیے عوام کو آپ نے کیا کیا سبز باغ دکھا ئے ، کس کس طر ح سے عوام کو سہانے سپنے دکھا ئے ، دراصل آپ کے دکھا ئے گئے سبز باغ کے جھا نسے میں آکر عوام نے اقتدار آپ کے سپرد کیا ، اگر مو جودہ حکومت کے اعلی دما غوں نے بھی سابق حکومتوں کی طر ح عوام کا خون چوسنا ہے ، عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا ہے ، مہنگائی پر قابو پا نے کے بجا ئے مہنگائی میں اضافے کا فریضہ سر انجام دینا ہے ، بے روز گاروں کو حسب سابق ٹر ک کی بتی کے پیچھے لگا نا ہے ، پھر کیسی تبدیلی ، کو ن سی تبدیلی ، کہاں تبدیلی ، سابق جمہوری ادوار میں کیا ہو تا رہا ، عین یہی کچھ ، سابق حکومتیں بھی خزانہ خالی ہے ، ملکی معیشت خستہ حال ہے ، ملک تباہی کے دہا نے پر کھڑا ہے ، جیسے راگ الا پتی رہیں ، بعد میں مگر عوام پر راز منکشف ہوا کہ جو حکمران خزانہ خالی اور ملکی معیشت کی تباہ حالی کی دہا ئیاں دیتے رہے وہ اپنے خزانے بھر کر چلتے بنے ، قصہ اب کے بار بھی کچھ ایسا ہی ، مو جودہ حکومت پہلے دن سے خزانہ خالی ہے کا نعرہ بلند کیے ہو ئے ہے، معیشت کی خستہ حالی کا الگ سے رونا رویا جا رہا ہے ، آئی ایم ایف اور گر دشی قر ضوں کو ڈھا ل بنا کر عوام کی جیبوں سے پیسہ نکا لنے کے لیے ہر سبیل ہر ہنر اپنا یا جا رہا ہے ، جناب وزیر اعظم اپنی ہر تقریر ہر بیان میں فر ماتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے شکنجے اور گر دشی قر ضوں کے پھندے سے وطن عزیز کی جاں خلاصی کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا بو جھ ڈال رہے ہیں ، مگر اس المیہ مینا کا ری کے درمیاں حکومت کیا رہی ہے ، پنجاب اسمبلی کے ” غریب ممبران اسمبلی “ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کر دیا گیا ، وزراء اور مشیروں کی آنیوں او ر جا نیوں کے موقع پر پروٹوکول وہی ” پرا نے زمانے “ والا چل سو چل ہے ، خزانے کی خستہ حالی کے باوجود قومی اور صوبائی کا بینہ میں وزراء اور مشیروں کی تعداد گننے میں نہیں آتی ، اس ضمن میں عوام کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کیے حکمران طبقے اور ان کے ہم نواؤں نے ، مختلف ادوار کے حکمرانوں اور ان کے ناک کے بال گردانے جا نے والوں نے ملکی خزانے کو بے دردی سے نو چا سو جنہوں نے گا جریں کھا ئی ہیں مروڑ بھی ان کے پیٹوں میں اٹھنا چا ہیے ، سیدھے سبھا ؤ عوامی مو قف یہ ہے کہ جنہوں نے ملکی خزانے کا حال بد حال کیا ہے ، ان سے مال واپس لینے کی جستجو کی جائے ، عوام پر طبقہ اشرافیہ کے لو ٹ کھسوٹ کا بوجھ نہ ڈالا جا ئے ، ابھی عوام کے ذہنوں میں یہ لا وا پک ہی رہا تھا کہ حکومت وقت نے بڑے بڑوں کے اربوں کے قر ضے معاف کر نے کا اعلان کر دیا یہ تو بھلا ہو شعور کے وصف سے لیس احباب کا کہ جنہوں نے حکومت کے اس شاہی فرمان کے خلاف کلمہ حق بلند کیے رکھا اور آخر کار حکومت کو بظاہر پسپائی اختیار کر نی پڑی مگر زیادہ خوش ہو نے کی چنداں ضرورت نہیں ، جس طر ح سے پنجاب اسمبلی کے ممبران کو ” مابعد “ چپکے سے مراعات سے نوازا گیا ، قر ضہ معافی قصے پر دھول جمتے ہی کسی نئے ڈھنگ سے ” امراء “ کو نوازنے کی سبیل کی جاسکتی ہے ، گھوم پھر بات وہی پر آتی ہے ، کیا کھر بو ں کے ٹیکس عوام اس لیے دیتی ہے کہ ” عوامی کمائی “ سے ” خواص“ کے جیب بھر دیے جا ئیں ، متوسط طبقہ گرانی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے ، گرانی کے طوفانی رفتار سے عام آدمی کی زندگی بد سے بد تر ہو گئی ، ملکی معیشت کی پتلی حالت سے عام آدمی پر یشان ہے ، حکومت وقت مگر عام آدمی کی معاشی پر یشانیوں سے بے نیاز نظر آتی ہے ، کیا ایسی صورت حال کسی بھی جمہوری حکومت کے لیے سود مند ثابت ہو سکتی ہے ؟ اس سوال کا بہتر جواب حکومت کے اعلی دماغ ہی دے سکتے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :