” علی احمد کرد ! عدل کا درخشاں ستارہ “

پیر 3 فروری 2020

Ahmed Khan

احمد خان

علی احمد کرد کو بھلا کو ن بھو ل سکتا ہے، عدلیہ تحریک کے سدھار اور پھر منزل مقصود سے ہم کنار کر نے میں علی احمد کر د کا کر دار کلیدی تھا ، جب وکلا ء برا دری نے عدلیہ بحالی کی تحریک کی ابتداء کی ، عام خیال یہ تھا کہ یہ تحریک وکلا برادری کی ہے اور وکلا برادری تک ہی محدود رہے گی مگر علی احمد کر د اور اعتزاز احسن نے عدلیہ بحالی تحریک میں وہ رنگ بھر ے کہ عدلیہ بحالی تحریک پاکستانی قوم کی دل کی دھڑ کن بن گئی ، علی احمد کر د کے منفرد انداز اور والہانہ خطابت نے گو یا عدلیہ بحالی تحریک میں ایک نئی روح پھو نک دی ، بہت سو ں کو یا د ہو گا کہ علی احمد کر د کے خطاب کے لیے عوام کی بڑی تعداد بڑی بے تابی سے انتظار کیا کر تی تھی ، اور جب علی احمد کر د سٹیج سنبھال لیتے ،اس وقت حاضرین اور سامعین کے جوش کا حال دیدنی ہوا کر تا تھا، جس کی مثال الفاظ میں بیاں کر نا مشکل ہے ، قصہ مختصر عدلیہ بحالی تحریک کامیابی سے ہم کنا ر ہو ئی جناب افتخار چو ہدری اپنے منصب پر بحال ہو گئے ان کے ساتھ تمام معزز جج صاحبان بھی عدلیہ میں واپس آگئے ، عام آدمی کی طر ح علی احمد کر د کا خیال بھی یہی تھا کہ جناب افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد عدل کے باب میں انقلاب بر پا ہو گا ، تیز تر اور سستے ترین انصاف کا بول بالا ہو گا ، انصاف کی فراہمی غریب اور عام آدمی کے لیے آساں تر ہو جا ئے گی ، قانون کی علم برداری اور پاسداری کا ہر سو چرچا ہو گا مگر علی احمد کر د حالات دیکھ کر جلد ہی مایوس ہو گئے ، گئے دنوں میں ایک ٹی وی بات چیت میں علی احمد کرد پھر سے انصاف کے باب میں ” شاکی پن “ کا اظہار کر رہے تھے ، سچ پو چھیے تو جبر اور سماجی استحصال میں عدلیہ پاکستانی عوام کی واحد اور توانا امید ہے ، بجا کہ عدالت عظمی اور عدالت عالیہ عوام الناس کی داد رسی کر نے میں اپنا بھر پو ر کر دار ادا کر رہی ہیں ، ماتحت عدالتوں میں مگر انصاف کی فراہمی کا عمل پہلے کی طر ح سست روی کا شکار ہے ، معمولی معمولی قسم کے مقد مات کی چلنے کی رفتار رینگنے والی ہے ، اگر ماتحت عدالتوں میں بھی انصاف کی فراہمی میں چابک دستی کا وصف شامل ہو جا ئے ، یقین کیجئے عدل کے باب میں ایک خوش گوار انقلاب بر پا ہو جا ئے گا ، یاد رکھنے والی بات کیا ہے ، ان ممالک اور معاشرو ں میں شیر اور بکر ی ایک گھا ٹ پر پا نی پیتے دکھا ئی دیتے ہیں جہاں عملا ً انصاف کا بول بالا ہے ، ہما رے ہاں مگر صورت حال مختلف ہے ، مقدمات کی پیش رفت میں سست روی کی وجہ سے جہاں مظلوم کو کئی کئی سال تک عدالتوں میں دھکے کھ انے پڑ تے ہیں وہی بھا ری اخراجات کا بوجھ بھی اسے سہنا پڑ تا ہے اگر ماتحت عدالتوں میں مختلف جرائم کے حامل مقدمات کے فیصلوں کے لیے ایک مخصوص مد ت کا تعین کیا جا ئے اور عدالت عظمی اس پر سختی سے عمل در آمد یقینی بنا ئے ، اس سے سائلین کے لیے بہت بڑی آسانی پیدا ہو جا ئے گی ، دوم عدالت عالیہ کا دائر ہ کار ڈویثرن سے اضلاع تک وسیع کیا جا ئے ، ڈویثرن سطح پر اگر سائل کو عدالت عالیہ میں انصاف کے حصول کے لے جا نا پڑ ے ، اس صورت اسے دہرے اخراجات کا سامنا کر نا پڑ تا ہے ، ہا ئی کو رٹ میں انصاف کے حصول کے لیے سائل پہلے تو وکیل کے لیے ” تگڑی فیس “ کا بند و بست کر تا ہے ساتھ ہی سائل کو وکیل کو تاریخ پر لے جا نے کے لیے گاڑی کا اہتمام بھی کر نا پڑ تا ہے یو ں سائل کو عدالت عالیہ میں ایک تاریخ کم از کم دس سے پند رہ ہزار میں پڑ تی ہے ، اس کا صائب حل یہ ہے کہ عدالت عالیہ کے بینچ کا دائر ہ کار اضلاع تک پھیلا دیا جا ئے ، اس اقدام سے غریب سائلین کے لیے عداالت عالیہ کی طر ف رجو ع کر نا آساں تر ہو جا ئے گا ، عین اسی طر ح اگر عدالت عظمی کا دائرہ کا ر ڈویثر ن تک بڑ ھا دیا جا ئے اس سے پاکستان بھر کے عوام کے لیے عدالت کے سب سے بڑے دروازے پر دستک دینا نہا یت آسان ہو جا ئے گا ، یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جس معاشرے میں انصاف عوام کو گھر کی دہلیز پر ملا کر تا ہے وہ معاشرے قائم و دائم رہتے ہیں وہ معاشرے تر قی کے زینے بھی راتو ں رات طے کر تے ہیں ، لاکھ اصلاحات کیجیے جب تک انصاف کی تیز تر فراہمی وطن عزیز میں ممکن نہیں بنا ئی جا تی اس وقت تک سماجی سط ح پر حالات میں سد ھا ر پیدا نہیں ہو سکتا ، جب وطن عزیز میں تیز تر انصاف کی فراہمی کا باب کا آغاز ہو گا تو سب کچھ از خود بہتر ہو تا چلا جا ئے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سے علی احمد کر د جیسے جی دار وکلا بھی راضی بھی راضی ہو جا ئیں گے ، کاش متذکرہ نکات کے لیے علی احمد کر د عدلیہ بحالی کے طر ز پر ایک اور تحریک شروع کر یں ، دیکھ لیجئے گا پو ری قوم ایک مر تبہ بھر علی احمد کر د کی پشت پر کھڑی ہو گی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :