”کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے“

جمعرات 4 جون 2020

Ahmed Khan

احمد خان

ایک بات نوٹ کی ہے چلیں نہیں کی تو اب نو ٹ کر لیجیے،وہ یہ کہ کسی بھی بچے کی تر بیت کی پہلی در س گا ہ ما ں کی گو د ہو ا کر تی ہے ماں باپ کا سا یہ اور اچھے اساتذہ کی قر بت اور رہنما ئی کسی بھی بچے کی زندگی کو چار چاند لگا دیتی ہے ، لگی دو دہا ئیوں سے مگر نو نہال وطن کی تر بیت سے کسی حد تک والدین نے بھی ہا تھ اٹھا یااور سابق حکومتوں نے بھی نظام تعلیم کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا کہ تعلیمی اداروں سے تعلیم کے ساتھ ساتھ تر بیت پر بھی دانستہ قد غن لگا نے کی کو ششیں عروج پر رہیں ، پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کی حکومت سے قبل سر کا ر کی کمان داری میں تعلیم الم غلم تجر بات کا مر کز تھا سابق حکمرانوں کے ہاتھ پر جس ملک نے روپیہ رکھا حکمرانوں نے نہ صرف ان ممالک کے گیت گا نے شروع کیے بلکہ ان ممالک کی ” فر مائشی پا لیسیوں “ کو بھی پاکستانی نظام تعلیم پر تھو پنے کی سعی کی ، کبھی سنگا پو ر ماڈل کبھی امریکی نظام تعلیم کبھی بر طانیہ کے نظام تعلیم کو متعارف کر وایا گیا ، حکمرانوں نے گو یا پیسے کی لا لچ میں پاکستانی نظام تعلیم کو سرکس میں تبدیل کر دیا تھا ، بھلے وقتوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات کی تر بیت پر تعلیمی اداروں میں خاص توجہ دی جاتی تھی ، عربی ، اردو ، اسلا میات ، ڈرائنگ اور جسمانی تعلیم کے اساتذہ طلبہ و طالبات کی کردار سازی میں ہمہ وقت جھتے رہتے ، ادب اور تعظیم ایسی کہ والدین تو رہے ایک طرف ہر ایرا غیرا بھی طلبہ و طالبات کے ادب کے زیور سے آراستہ ہو نے پر فدا ہو تا ، اغیار کے ہاتھوں میں حکمرانوں نے جیسے ہی پاکستان کا نظام تعلیم گر وی رکھا اس کے بعد طلبہ و طالبات کی تر بیت کا بیڑا غرق ہو نے کا سلسلہ شروع ہوا ، جواز کیا گھڑا گیا ، یہ کہ سائنس کا عہد ہے تمام تر توجہ سائنس اور فقط سائنس سے جڑ ے مضامین پر مر کوز کی جا ئے ، ابتدا ء میں اسلامیات سے بنیادی عقائد پر ضربیں لگنے کی راہ اختیار کی گئی ، مختلف جماعتوں کے نصاب سے ختم نبوت ، جہاد اور مسلمانوں میں باہمی اتفاق کا درس دینے والی آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو نصاب سے نکالا گیا ، کسی بھی مسلمان کے لیے اسلامی عقائد سے آگاہی از حد ضروری ہے مگر غیروں کے ہاتھوں کھلونا بننے والے حکمرانوں نے عربی مضمون کو بھی منظر سے غائب کر نے کی ٹھا نی ، سرکار کے زیادہ تر سکولوں میں عربی اساتذہ کی سیٹوں کو بھی غیر محسوس انداز میں ختم کرنے کی پا لیسی چالو کی گئی ، کچھ ایسا ہی معاملہ ڈرائنگ کی سیٹوں کے ساتھ کیاگیا ، سب سے پہلے عربی اور ڈرائنگ کے اساتذہ پر ” نکمے پن “ کا ٹپہ لگا دیا گیا ، اس کے بعد سر کار کے اکثریت سکولوں میں ڈرائنگ کے سیٹوں کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلو ک اپنا یا گیا ، کسے معلوم نہیں کہ طلبہ و طالبات کی تحریر کو خوش نو یسی کے رنگ میں ڈالنے میں ابتدائی جماعتوں میں پڑ ھا ئی جا نے والی ڈرائنگ کلیدی کر دار ادا کر تی ہے ، انہی بنیادی جماعتوں میں دی جانے والی ڈرائنگ کی تعلیم کے بل پر ہی آگے چل کر بڑے بڑے خطاط جنم لیتے ہیں ، قومی زبان اردو کا رنگ ” پھیکا “ کر نے میں بھی سابق حکمرانوں نے کو ئی کسر نہیں چھو ڑی ، اردو کی نیا ڈبونے کے لیے مسند اقتدار کے مکینوں نے دانستہ انگریزی کے سر پر دست شفقت رکھا ، پتے کی بات کیا ہے ، طلبہ وطالبات کی کردار سازی اور انہیں معاشرے کا مفید شہر ی بنا نے میں اسلامیات ، عربی ، اردو ، ڈرائنگ اور جسمانی تعلیم کے اساتذہ اہم کر دار ادا کرتے ہیں ، اخلاقیات کی کو نپلیں متذکر ہ امضامین کے اساتذہ کی محنت شاقہ سے پھوٹا کر تی ہیں ، یاد رکھیے کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک اپنا مزاج ہوا کر تا ہے ، ریاضی ، کیمیا ، بیالو جی اور کمپیوٹر کے اساتذہ پر اپنے مضامین کا اتنا تد ریسی بوجھ ہو ا کر تا ہے کہ انہیں اپنے مضامین میں سر کھپا نے سے فر صت نہیں ملتی ، تحسین کے مستحق ہیں پنجاب کے پڑ ھے لکھے وزیر تعلیم مراد راس جنہوں نے سابق حکمرانوں کے ہاتھوں دفن شدہ مضامین کو پھر سے زندہ کر نے کی ٹھان لی ہے ، مراد راس نے ایک پھر عربی ، اسلامیات ، ڈرائنگ کے مضامین کی اہمیت اور افادیت کو دیکھتے ہو ئے تمام سر کار سکولوں میں نئے سر ے سے بحال کر دیا ہے ،جناب مراد راس کی اس تعلیم اور اقدار دوست فیصلے کو تعلیمی حلقوں میں خوب سر اہا جا رہا ہے ، بات تعلیم و تربیت کی ہو اور والدین کا تذکر ہ نہ ہو ، سمجھ لیجیے بات ادھو ری رہ گئی ، گئے زمانوں میں طلبہ و طالبات کے باادب ہو نے پر والدین فخر سے پھولے نہ سماتے تھے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب والدین کے رویوں میں تبدیلی آچکی ، جب کو ئی بچہ ڈاکٹر بنتا ہے ، کو ئی ریاضی کے مضمو ن میں امتیازی درجہ حاصل کر تا ہے تو والدین بڑے طمطراق سے اپنے حلقہ احباب میں اپنی بچوں کی کامرانیوں کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں ، دنیاوی لحاظ سے یہی بچے جب بڑھا پے میں والدین کو فراموش کر ددیتے ہیں پھر ان کی زبانوں پر بس ایک ہی جملہ ہو تا ہے ، وہ یہ کہ اپنے خواہشات اپنی جوانی اپنی اولاد پر وار ی مگر اب ہماری اولاد ہمارا حال تک نہیں پو چھتی ، حضور والا یہ کہنے سے پہلے اپنے گر بیاں میں جھا نک لینے کی زحمت ایک بار ضرور کر لیجیے، کیا آپ نے اپنی اولاد کی تر بیت اسلامی اقدار کے مطابق کی تھی ، دین اسلام کے سنہر ے عقائد سے اپنی اولاد کی سنیوں کو منور کیا تھا ، ظاہر ہے جواب نہیں میں ہے ، جب طلبہ و طالبات کو اسلا می اقدار کے سانچے میں ڈالا ہی نہیں پھر گلہ کیا اور شکو ہ کیا ۔

(جاری ہے)

امید واثق ہے کہ جناب مراد راس تعلیم کا قبلہ درست کر نے کے لیے مزید ایسی تعلیم دوست پا لیسیوں کے نفاذ کے لیے مستقبل میں بھی کمر بستہ رہیں گے ۔
پس تحریر ! اس معاملے میں جناب مراد راس ان امر کا خیال رکھیں کہ جو” من چاہے “غلط سیٹوں پر براجمان ہیں ان کو دوسروں سکولوں میں تعینات کر نے کی پا لیسی لا گو کی جا ئے ، جو اساتذہ درست سیٹوں پر اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں انہیں نہ چھیڑا جا ئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :