مر کز میں جناب خان کو براجمان اور پنجاب میں جنا ب بزدار کو کما ن دار دیکھ کر بے اختیار غلام حید ر وائیں مر حوم و مغفور یاد آجا تے ہیں ، جناب نواز شریف عام انتخاب کا معرکہ سر کر وزیر اعظم بنے ، پنجاب میں انہو ں نے جنا ب غلام حید ر وائیں کا بطور وزیر اعلی انتخاب کیا ، غلام حیدر وائیں مر حوم شخصی خوبیوں سے مالا مال انسان تھے، عجز کی صفت سے آراستہ درویش منش ، ملنسار تکبر سے کو سوں دور اعلی درجے کے نفیس اور شریف النفس، اپنے حلقہ انتخاب کے ” سیاسی مرشد “ ، میاں صاحب کا خیال تھا کہ پنجاب میں انہیں ہر معاملے میں ” جی حضور“ طر ز کا وزیر اعلی سو ٹ کر ے گا ، جناب وائیں اس لحاظ سے میاں صاحب کی ” قابلیت “ پر ہر طر ح سے پو رااترتے تھے ، جناب وائیں کے وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد عملاً مگر میاں صاحب وزیر اعظم ہو تے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلی تھے ، بجا کہ جناب وائیں مرد معقول تھے، وزارت اعلی کے عہدہ جلیلہ کے لیے مگر کچھ ” حاکمی صفات “ کا ہو نا بھی از حد ضرور ی ہو تا ہے ، سیاست کے کھلا ڑی اور حکومت کے کما ن دار کے طور پر بروقت قوت فیصلہ اور بر عمل اقدام کی بڑی اہمیت ہو ا کر تی ہے ، اس معاملے میں مگر وائیں صاحب کے ہاتھ بندھے تھے ، جہاں کہیں اہم معاملہ در پیش ہوتا جہاں کہیں ” گو مگو “ کی سی صورت دیوار بن جاتی ، حکومتی سطح پر بر وقت فیصلہ کر نے کے بجا ئے جنا ب وائیں مر کز کی طر ف دیکھنا شروع کر دیتے ، کئی معاملات میں بڑے میاں صاحب سے باقاعدہ اجازت حاصل کی جاتی ، حکومتی اور انتظامی سطح پر اس ” جھول “ نے کمزور وزیر اعلی کے خلاف ” مر ہٹہ پن “ کو فروغ دینا شروع کر دیا ، پنجاب میں سیا سی مخالفین تو رہے ایک طرف مسلم لیگ ن کے اپنے ایم پی اے جناب وائیں سے نا لا ں ہو تے چلے گئے ، اس وقت پنجاب کی سیاست میں سیاست کے ” با با جی اے چشتی “ جنا ب منظور ٹو نے جناب وائیں کو وزارت اعلی کے عہدے سے ایسے کسکا یا کہ جناب نواز شریف سے پنجاب کی صورت حال سنبھالی نہ گئی ، یعنی جناب وائیں گھر چلے گئے اور میاں صاحب بس ہا تھ ملتے رہ گئے ، میاں صاحب کواس سارے قصے سے ایسا سبق ملا کہ بعد میں انہوں نے ہمیشہ اپنے بھا ئی جنا ب شہباز شریف کو ہی وزیر اعلی پنجاب بنایا اگر چہ سیاسی مخالفین ان پر اقر با پر وری کے الزمات عائد کر تے رہے ان کے اس فیصلے پر ان کے ہر دور میں تنقید ہو تی رہی مگر جنا ب نواز شریف نے اس معاملے میں کسی کی نہ سنی اور نہ ما نی ، جناب میاں شہباز شر یف تین مر تبہ وزیر اعلی بنے مگر انہوں نے پنجاب میں نواز شریف کے لیے سیاسی بحران پیدا نہ ہو نے دیا ، مو جودہ سیاسی منظر نامے پر نگا ہ ڈال لیجیے ، پس ما ندہ ضلع سے تعلق رکھنے والے جناب بزدار ایک متین اور نفیس انسان ہیں ، سر تا پا عجز کی عملی تصویر ہیں ، حکمرانی کروفر کی بو تک جناب بزدار میں نہیں پا ئی جاتی ، تعلیم یافتہ ہیں مگر معاملہ یہاں بھی جناب وائیں والا ہے ، جناب خان وزیر اعظم بھی ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلی بھی ، جناب بزدار ہر اہم معاملے ہر ہم نکتے میں جناب خان طر ف دیکھتے ہیں ، اسلا م آباد سے جو احکامات ملتے ہیں لا ہور ان احکامات کے تابع چلتا ہے ، ہو نا کیا چا ہیے تھا ، جنا ب بزدار کے گماں میں بھی نہیں ہوگا کہ لائق فائق اور سیاسی قد کا ٹ والے رہنما ؤں کی مو جود گی میں وزارت اعلی کے انعام سے قدرت انہیں نوازے گی مگر دیکھ لیجیے قدرت کے مہرباں ہا تھوں نے جناب بزدار کو اعلی منصب سے سر فراز کر دیا ، جناب بزدار وزارت اعلی کا منصب پا نے کے بعد اپنا آرام ، اپنی تمام تر قابلیت اپنی تمام تر اہلیت اپنی تمام تر سیاسی سوجھ بوجھ اپنے عوام پر وار دیتے ، خلق خدا کی خدمت میں دن رات ایک کر دیتے ، خود کو ایک غیر رسمی وزیر اعلی کے طور پر پیش کر تے ، عوام کی ا منگوں اور آرزؤ ں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے حکومتی سطح پر تیز تر اقدامات کر تے ،یقین کیجیے پنجاب کے ماضی کے تمام وزرا ء اعلی کو بھول بھا ل کر خلق خداآج جناب بزدار کے قصیدے گاتی ، ، یاد رکھیے پنجاب میں تحریک انصاف ایک ننھا منا سیاسی پو دا ہے ، اس پو دے کو توانا کر نے میں جناب بزدار اگر چا ہیں تو کلید ی کر دار ادا کر کے تحریک انصاف کی نیک نامی میں خوب اضافہ کر سکتے ہیں اور اپنی وزارت اعلی کی ” پگ “ کی عزت و ناموس کو بھی بڑ ھوتری دے سکتے ہیں ، اریب قریب مگر دوسال سے زائد کے اقتدار کے باوجود جناب بزدار پنجاب میں وہ تبدیلی لا نے میں کامران نہ ہو سکے جس کا نعرہ لگا کر تحریک انصاف اقتدار میں آئی تھی ، جناب بزدار اور جناب خان کی اس” باہمی رضامندی “کے کلیے سے پنجاب حکومت اور پنجاب کی سیاست پر غیر یقینی کے بادل ہر گز رتے دن کے ساتھ گہر ے ہو تے جارہے ہیں ، حالات جس نہج پر جا رہے ہیں ان کو دیکھتے ہو ئے اس امکاں کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ کل کلا ں کوئی پنجاب میں تحریک انصاف کے اقتدار کے سورج کو غروب کر نے کا ساماں کر دے ، ما ضی میں جس طرح جناب وائیں وزارت اعلی سے بے دخل ہو ئے اور بڑے میاں صاحب پو ری کو شش کے باوجود ہا تھ ملتے رہ گئے کہیں ماضی پھر سے خود کو دہرا نہ دے ، تاریخ سے سبق حاصل کر تے ہو ئے جناب خان کو پنجاب کے بارے میں زمینی حقائق اور عوامی امنگوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے فیصلے کر نے ہو ں گے اسی میں تحریک انصاف ، پنجاب اور اہل پنجاب کا بھلا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔