”بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے“

ہفتہ 18 جولائی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

کسی بھی نو کر ی بلکہ چاکری کے لیے پچپن سال کا کلیہ ضرور بہ ضرور حکومتی سطح پر لا گو کر نے کی سبیل کر یں مگر اصل رو ح کے ساتھ اس کا اطلاق ہو ، عام سر کا ری ملازمین کی گردنوں پر چھری پھیر دی جا ئے اور ” پتر جمال “ حسب سابق عیاشیاں کر تے پھر یں بات ایسے بنے گی نہیں ، بہت سارے شعبوں میں ریٹا ئرڈ ہو نے والے ” بڑ ے سر وں “ کو کھپا نے کی رسم جانے کب سے عام ہے ، بہت سے تو ایسے ہیں کہ ریٹا ئر منٹ سے پہلے ہی اپنے لیے نئی جگہ پر نئی کر سی کا بند و بست کر لیتے ہیں ، ادھر ریٹا ئر ڈ ہو ئے ادھر اگلے دن دوسرے محکمے میں نئے عہد ے پر فائز ہو گئے ، بچپن سال ریٹا ئر منٹ کا قانون ہر چھو ٹے بڑے ملا زم پر بغیر کسی ” اگر مگر “ کے لاگو ہو یعنی سیدھا سادا قانون بنا لیجیے جو فرد کسی بھی سرکاری محکمے سے ریٹا ئر ڈ ہو گا اس پر دوبارہ سرکار کا دروازہ بند ہو گا بلکہ سختی سے بند ہو گا ، تصویر کا دوسرا رخ مگر دلچسپی سے خالی نہیں ، پچپن سال نوکری اور پنشن ختم کر نے کے قصے میں جن اکا برین کے نام نامی گر دش کر رہے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں جو کئی دہا ئیوں سے تسلسل سے حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ نظام اور چہر وں کی تبدیلی کے نعرے لگا کر حکومت میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت سے بھی یہ ” پرا نے چہر ے “ اسی آن بان شان سے جڑ ے ہیں، کس کس سر کاری عہد ے پر یہ مہر بان فائز رہے کس کس حکومتی کمیٹی کے سر براہ رہے کس کس حکومتی کمیٹی کے یہ رکن رہے ، سر کاری عہد وں کی فہر ست اتنی طویل ہے کہ سیاسیاست اور صحافت کے طالب علموں کو بھی ان کے سارے کے سارے عہد ے ازبر نہیں ، ان احباب کا ” بہار تعارف “ ما ہر ین معاشیات کا ہے مگر ان کی سفارشات اور پا لیسیوں سے عوام کی معاشی زندگیوں میں بہار کے بجا ئے بگا ڑ آیا ہے مگر ان ماہرین معاشیات کے ہاتھ نہ جا نے کو ن سی گیڈر سنگھی ہا تھ لگی ہے جس کی بھی حکومت ہو جو بھی حکومت ہو اس حکومت کا کو ئی حصہ بنے یا نہ بنے مگر گنے چنے یہ ماہر ین معاشیات لا زماً اقتدار میں آنے والی حکومت کا حصہ ہوا کر تے ہیں ، ان ما ہر ین معاشیات کی وجہ سے وطن عزیز اور عام آدمی کی معیشت تو بہتر ہو نے کے بجا ئے بد تر ہو تی چلی گئی مگر معیشت کے ان مہر بانوں کی اپنی معیشت دن دوگنی رات چو گنی بہتر بلکہ بہترین ہو تی چلی گئی ، تنخواہ اور مراعات کب سے لے رہے ہیں کتنی لے رہے ہیں کیسے لے رہے ہیں کیوں لے رہے ہیں ، حساب کتاب کا کھا تہ کبھی کھول لیجیے ساتھ یہ جا نچ بھی ضرور کر لیجیے کہ ” دلکش “ مراعات اور تنخوا سے دو دو ہا تھ کر نے والوں نے بدلے میں پاکستان اور عوام کی معیشت بہتر کر نے کے لیے کتنے تیر ما رے ،وطن عزیز میں عام طور پر ساٹھ سال کی عمر میں پہنچ کر سرکار کے ملا زمین گھر وں کو چلے جا تے ہیں ، ا سی طرح کا روبار سے وابستہ افراد بھی عمر کے اس حصے میں پہنچ کر کاروبار ی سر گر میوں سے خود کو رضاکارانہ طور پر الگ کر کے آرام کی زند گی گزارنے کو تر جیح دیا کر تے ہیں ،ادھر مگر صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے حکومت سے وابستہ ان ما ہر ین معاشیات کی عمر ساٹھ سے اوپر بلکہ کئی تو بہت ہی ” اوپر “ ہیں مگر مجال ہے کبھی سرکار کا پر کشش عہدہ لینے سے انکار کیا ہو ، سوال یہ ہے ، کیا ان گنے چنے ما ہر ین معاشیات کے سوا وطن عز یز میں کو ئی لا ئق فائق معاشیات کے سر نہیں ہیں ، اسی سے جڑا سوال یہ ہے ، ہر حکومت آخر انہی چند گنے چنے ماہر ین معاشیات پر تکیہ کیوں کر تی ہے ، حکومت کے معاشی ٹیم میں بھی نئے خون کو شامل کر نا چاہیے نئے دماغوں کو مو قع دینا چا ہیے کہ وہ پاکستان کی معیشت کی خدمت کر سکیں ، عام آدمی کے بھلے کے لیے نئے دماغ کچھ ایسا خاص کر گز ریں جس سے عام آدمی کی زند گی میں آسانی پیدا ہو جا ئے لیکن تھا ن گھوم پھر کر انہی معیشت کے ” دانوں “ پر آکر ہی ٹو ٹتی ہے آخر کیوں، کچھ ایسا ہی قصہ سیاست کے بازار کا بھی ہے ، صدر ، وزیر اعظم ، وزیر ، مشیر کبیر ، ممبران اسمبلی پر بھی پچپن سال والے قانون کا نفاذ ہو نا چا ہیے ، سیاست کے میدان کے گھوڑوں کو عوام بہت بار آزما چکی اب نئے لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملنا چا ہیے ، سیاست کے ان جا نے پہنچا نے چہر وں اور ان کی ” لیاقت “ کے ساتھ قوم نے بہت گزارا کر لیا اب سیاست کی باگیں بھی پچپن سال سے کم عمر والوں کے ہاتھ میں تھما نے چاہییں ، مملکت خداداد میں ہو کیا رہا ہے ،سختی اور تنگی عام آدمی کے سر تھو پی جا تی ہے ، کیا ہر بار عام آدمی ہی قر بانی کا بکر ا بنے گا ، کچھ خدا کا خوف کیجیے ایسی معاشی پالیسیوں کا چلن عام کیجیے جن کے نفاذ سے گرانی کا طوفان تھم جا ئے بے روز گاروں پر روز گار کے دروازے وا ہو جا ئیں ، مملکت خداداد کی معیشت مستحکم ہو فی کس آمدنی میں بڑ ھوتری دیکھنے کو ملے ، عا م آدمی کو بھلے کچھ زیادہ نہ دیں مگر اتنی کرم فر ما ئی تو کر لیں کہ جب شام کو مز دور گھر جا ئے آس لگا ئے بچوں کے لیے کچھ لے کر جا ئے ، جب خوشی کو کو ئی موقع آئے تو عام آدمی کے بچے کم ازکم نئے کپڑ ے پہن سکیں، اسلام کے پیروکاروں اور فلا حی ریاست کے ٹھیکداروں بس معیشت کے باب میں کچھ ایسی تاریخ رقم کر لیجیے کہ کو ئی ننگا نہ رہے کو ئی بھو کا نہ رہے کسی کو بھو ک کے خوف سے اپنے بچوں کے گلے پر چھری نہ پھیر نی پڑ ے کسی کو تنگ دستی کے ہا تھوں موت ارزاں نہ لگے ، زیادہ نہیں بس اتنا کر لیجیے, ہاں اتنا تو بتا دیجیے پھر کب پچپن سال سے اوپر والے وزیروں مشیروں اور ممبران اسمبلی کو فارغ کر رہے ہیں، دیکھ لیں شروعات آپ نے کیں ہیں اب اس کا اختتام بھی آپ کے ذمہ ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :