پھر وہی ایک ہزار

ہفتہ 16 اکتوبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ہمارے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کے ذہین ترین طلباء دوسرئے ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح محنتی افراد کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ بہتر مستقبل کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رُخ کیا جائے۔ وہ طلباء جو بہترین رزلٹ دیتے ہیں ان میں سے 90فیصد تو اعلی تعلیم کے لیے یہاں سے نکل لیتے ہیں۔ بہترین ہنر مند افراد بھی زیادہ تردوسرئے ممالک میں چلے جاتے ہیں۔

اور پاکستان میں کیا بچتا ہے چھان بورا۔ تو اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ برین ڈرین یعنی قابل لوگوں کا ملک سے باہر چلے جانا ۔ ہلکے دماغ کے لو گ بھلا ملک کو کہاں ترقی کی شاہرہ پر دوڑا سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ دوسرئے ممالک کے لوگ پاکستان میں نوکریاں تلاش کرنے آیا کریں گے۔

(جاری ہے)

فی الحال تو ایسا دیکھائی نہیں دے رہا،ہاں ہوسکتا ہے مستقبل میں اس کی کوئی شکل نہیں آئے۔


پنجاب میں انٹرمیڈیت 2021کے نتائج کا علان کردیا گیاہے۔ رزلٹ گزشتہ آٹھ دس سالوں کی طرح بہترین آیا۔ یعنی ہر دوسرئے بچے کے نمبر 1000یا اس سے زیادہ آئے۔ کچھ بچے جن کا تعلق شائد اس دنیا سے ہے ہی نہیں نے پورئے پورئے نمبر حاصل کیے ہیں۔ پاکستان میں سی ایس ایس کا رزلٹ گزشتہ کئی سالوں سے ایک فیصد آرہا ہے ۔ ابھی دو دن پہلے کی ہی بات ہے کہ پنجاب یونی ورسٹی کے شعبہ صحافت میں پی ایچ ڈی کے داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ لیا گیا۔

اس ٹیسٹ میں ملک کے بہت سے نامور صحافی اور اساتذہ بھی شامل تھے۔ یعنی اچھے اچھے لجوں کے اساتذہ اور بہترین اداروں کے صحافی ۔ آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس انٹری ٹیسٹ میں ایک بندہ بھی پاس نہیں ہوا۔ لیول چیک کریں آپ لوگ کہ گھر سے پی ایچ ڈی کرنے نکلے ہیں لیکن انٹری ٹیسٹ تک پاس نا کرپائے۔
پاکستانیوں کو انگریزوں سے آزادی حاصل کیے تقریبا 80سال ہونے والے ہیں۔

ان 80سالوں میں ہم نے اعلی درجے کے بہت ہی کم سائنسدان، انجینیر، آرکیٹیٹ، لیڈر، ڈاکٹراور صحافی پیدا کیے ہیں۔ کرونا کی وبا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس کی ویکسین کاسہرا ایک دفعہ پھر مغربی ممالک کے سر باندھا گیا۔ اسی طرح بہترین عمارتین، بہترین ادب ، بہترین دریافتیں ، ایجادیں انہی کے حصے میں آتی ہیں۔ہاں اگر کبھی کوئی پاکستان نژاد بہتر کارکردگی دیکھاتا ہے تو اسے ہم اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھائی اب جناب کا اس ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں کبھی سالوں بعد ایسے لو گ ضرور اپنے ملک کو یاد کرلیتے ہیں۔
چلیں مان لیتے ہیں چند ذہین لو گ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو جناب یہ جو باقی ہزار ہزار نمبر لینے والے بچے ہیں آخروہ کہاں گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہو جات ہیں۔ اتنے نمبر لینے والے افراد اگر مغرب کے پاس ہوں تو وہ لوگ تو اس سے بھی ڈبل ترقی کر جائیں جتنی وہ آج کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک کا نظام تعلیم صرف اور صرف کلرک پیدا کررہا ہے۔ ہمارئے ملک میں اسی شخص کو کامیاب تصور کیا جاتا ہے جو کسی بینک میں اچھی نوکری کر رہا ہو۔ ڈاکٹر ہو یا انجینیر ہو۔ ایک عدد کار اور چھوٹا سا بنگلہ خرید رکھا ہو۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ ہمارے ہاں ڈاکٹرز ، انجینیریا سائنسدانوں کی کمی ہے۔ ایسے لوگ موجودتو ہیں لیکن ان کا علم محدود ہے۔

کوئی بہترین ایجاد یا دریافت ان کے کھاتے میں نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں اگر کوئی ڈاکٹر مشہور ہوجائے تو یہ نہیں کرتا کہ چلو کوئی ایسا کام کریں جس سے ملک و قوم کا فائدہ ہو ۔ بلکہ وہ فورا اپنی فیس کو تین چار گنا بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح کوئی قابل وکیل ہو تو وہ کبھی قانون پر بہترین کتاب لکھنے کا نہیں سوچے گا، بلکہ وہی ڈاکٹروالا نسخہ استعمال کرئے گا، یعنی اپنی قانونی فیس بڑھا دئے گا۔

یہی حال سب کے سب اداروں اور لوگوں کا ہے کہ تھوڑی سی شہرت ملی فورا اسے کیش کروانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔
جب تک عام آدمی ذاتی مفاد سے نکل کر ملک کے مفاد میں نہیں سوچے گا تب تک ترقی ممکن نہیں۔ ہمیں خود کو نمبروں کی دوڑ سے نکالنا ہوگا۔ ہم ہر طرح کی تعلیم اپنے مستقبل کو نہیں بلکہ ملکی مستقبل کو سامنے رکھ کر تشکیل دینی ہوگی۔
تو جناب بات کہنے کی صرف اتنی سی ہے کہ نمبر بھلے آپ کم لیں لیکن خدارا رٹا سسٹم پر مت چلیں۔

یہ جو مارکیٹوں میں سستے داموں نوٹس ملتے ہیں جو بچوں کو پاس ہونے کی گارنٹی دیتے ہیں تو یہ صرف محدودیت کو ابھارتے ہیں۔ ذہانت اور قابلیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ طلباء کو زیادہ سے زیادہ ٹیکنکل ایجوکیشن کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ تاکہ وہ ملک و قوم کے کام آسکیں اور ہمیں باہر سے ماہرین بلوانے کی ضرورت نا پڑیں۔ نجی اکیڈمیوں پرانحصار کو کم کرنا پڑئے گا۔ ہزاروں میں فیس بٹورنے والی یہ اکیڈمیاں بھی کلرک ہی پیدا کر رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :