”لگے رہو منا بھائی“

ہفتہ 8 جنوری 2022

Ahmed Khan

احمد خان

جمہوری ایوانوں میں تشریف فر ما کر م فر ما ؤں کے محصولات ادائیگی کی تفصیلات سرکار کے ادا رے نے قوم کے سامنے عیاں کر دیے ہیں یہ تفصیلات جہاں دل چسپی کے حامل ہیں وہاں حیران کن بھی ہیں کچھ اراکین کی ٹیکس دینے کی شر ح با قاعدہ حیران کر دینے والی ہے انہی اراکین میں جناب خان بھی ہیں جناب خان کی ٹیکس ادائیگی کا قصہ بھی اچھا بھلا تو جہ کا طالب ہے جناب خان وزارت عظمی سنبھالنے سے قبل کم ٹیکس دیا کر تے تھے حالیہ تفصیل کے مطابق جناب خان کی ٹیکس شرح یک دم زیادہ ہو گئی ہے اس پر سرکار کے ترجمان کیا تاویل بیان کر تے ہیں آنے والے دنوں میں حکومت کے اعلی دماغ اس پر لب کشا ئی ضرور کر یں گے ، اس ضمن میں سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی عثمان بزدار کا تذکرہ خیر بھی ضروری ہے ان کی ٹیکس ادائیگی کی شر ح حیران کن بلکہ پریشان کن ہے ، بات صرف یہی پھر ہی ختم نہیں ہوتی بہت سے دوسرے ایسے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ہیں جنہو ں نے آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم ٹیکس سرکار کے خزانے میں جمع کیا ہے ، سوال یہ ہے کہ ان اراکین کے پاس انتخابات لڑ نے کے لیے پھر پیسہ کہاں سے آیا ، سیاست کے رموز اور انتخاب لڑ نے کے اتار چڑ ھا ؤ سے آشنا بھلے مانس احباب خوب جا نتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں صوبائی اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ نا خالہ جی کا گھر نہیں ، کسی بھی امیدوار کو انتخاب لڑ نے کے لیے زر کی بوریوں کا منہ وا کر نا پڑ تا ہے ، صوبائی نشست کا انتخاب اریب قریب کروڑ میں کم از کم امیدوار کو پڑ تا ہے اسی طرح قومی اسمبلی کا حلقہ چونکہ وسیع ہوتا ہے سو قومی اسمبلی کی نشست کا امیدوار اخراجات حوالے سے اس سے کہیں زیادہ آگے جاتا ہے، یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے اگر مقابلہ ” سخت “ ہو تو اس صورت اخراجات کا کھاتا بھی ” طویل تر“ ہوتا ہے گو یا زر کثیر کو تیلی دکھلا نے کے بعد کہیں امیدوار کو جیت نصیب ہوا کرتی ہے ، اراکین کے ٹیکس ادائیگی اور انتخاب لڑ نے کے اخراجات کا اگر موازنہ کیا جائے ، صاف سی بات ہے کہ دونوں معاملات میں واضح تفاوت سامنے آتی ہے ، سیاست کے میداں کے بہت سے ” گرو“ اس بابت عام طور پر کہتے پا ئے جاتے ہیں کہ ان کا تعلق تو متو سط طبقہ سے ہے ان کے انتخابی اخراجات کا بار ان کے دوست احباب اٹھا یا کر تے ہیں گر چہ ” مٹی پاؤ جان چھڑا ؤ “ کی حد تک تو ان کر م فر ما ؤں کی بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے ، حقائق سے لیکن یہ ” نسخہ کیمیا“ لگ کھا نے والا بالکل نہیں ، چلیں ہزاروں تک تو بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے لیکن کو ئی اتنا سادہ دل غنی نہیں جو ہر الیکشن میں لا کھو ں کروڑوں روپے ” دوستی “ کے نام پر کسی امیدوار پر اڑا دے ، بات دراصل وزیر خزانہ والی ہے کہ جو جتنا زیادہ طاقت ور ہے وہ اتنا ہی کم ٹیکس دیتا ہے ، وطن عزیزکے وسائل پر اسی دو فیصد کابلا شرکت غیرے قبضہ ہے کم نصیبی مگر ملا حظہ کیجئے جب سرکار کو کچھ دینے کی باری آتی ہے تو یہی دوفیصد ہزار طریقے اختیار کر کے سرکار کو ” دینے “ سے راہ فرار اختیار کر لیتی ہے، کھر ب پتی سیاست داں کھر ب پتی زمین دار کھر ب پتی جا گیر دار کھرب پتی صنعت کار کھر ب پتی ساہو کار اگر ایمان داری سے سرکار کو ٹیکس ادا کر یں یقین کیجیے سرکار کا مالی خسارہ ختم نہیں تو کم ضرور ہو سکتا ہے عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے ، ہو مگر کیا رہا ہے ، ملکی وسائل پر قابض دو فیصد ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور اس ” پو تر مخلوق“ کی عیاشی کا بوجھ طبقہ اشرافیہ کی نما ئندہ حکومتیں عام آدمی پر ڈالتی جارہی ہیں ، آخر کب تلک طاقت ور گروہ کا بوجھ عام آدمی اٹھا تا رہے گا ، آخر کب تلک طاقت وروں کی عیاشی کی قیمت عام آدمی چکا تا رہے گا ، سچھ پو چھیے تو اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ، بس لگے رہو منا بھا ئی طاقت ور سیٹھوں کی تجوریاں بھرتے رہو اور عام آدمی کا خون کبھی بجلی کبھی گیس کبھی گھی کبھی چینی کبھی آٹے کبھی دال کبھی سبزی کبھی گوشت کے نر خوں کو بڑھا وا دے کر چوستے رہو ، بس بہت ہو گئی عام آدمی ظلم کی چکی میں پستے پستے ہو تبا ہ ہو چکا ، اب تو عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ ے ہو ئے ہیں ، بے روز گاری عام آدمی کا مقدر بن چکی انہی الم غلم پالیسیوں کی وجہ سے عام آدمی کے لیے اب سانس لینا دوبھر ہوچکا ، اب اپنی رعایا پر رحم کر لیجیے پوتر مخلوق کے منہ سے نوالہ چھین کر عام آدمی کے منہ میں ڈالنے کی روش عام کیجیے ، منا بھائی کا کھیل بہت کھیل چکے اب اس کھیل تما شے کو ختم کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :