تصوف اور قومِ یوتھ

ہفتہ 18 جنوری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

وزیرِا عظم”نیا پاکستان“ کا حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ”تعلیمی نصاب میں تصوف کو شامل کیا جائے“ اس تازہ ترین حکم نامے پر ہم تو ہرگز حیران نہیں لیکن ان کے پیروکار برگر،پیسٹریاں جو کل تک کنٹینر پر ڈی جے کی دھنوں پر ناچ ناچ کر اپنی پتلونیں پھٹوا بیٹھے تھے وہ ضرورِ حیرتوں کے سمندر میں ڈوبے سوچ رہے ہیں کہ ان کا کپتان انہیں اب کیا بنانے پر تلا ہوا ہے۔

بیکن ہاوس اور سٹی اسکولوں میں پڑھنے والی قومِ یوتھ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ اب رومی ٹوپیاں لے کر صوفی بننے اور حوالے سے آئندہ صوفی ازم کی تصانیف پڑھنے کے لیئے تیار رہیں،حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ تعلیمی نصاب میں پاکستان کے آئین اور ضروری قوانین کی شقیں شامل کی جاتیں،تا کہ قوم کے نونہالوں اور بلخصوص یوتھیوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ کس طرح ستّر سالوں سے ان کے بنیادی حقوق پامال اور سلب کیئے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن چونکہ مسائل کی چکی میں پھنسی قوم کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانا مقصود ہے اس لیئے روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی حکم نامہ کر دیا جاتا ہے۔ 
دوسری جانب تبدیلی سرکار کی معاون خصوصی و چیئرمین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ثانیہ نشتر نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ”اگلے ہفتوں میں مزید لنگر خانے کھلیں گے“۔ گویا ملکِ پاکستان کو صحیح معنوں میں ملنگستان بنانے کے لیئے کمر کس لی گئی ہے۔

روحانیت کے زیرِا ثر اور تعلیمی نصاب میں تصوف کو شامل کرنے کے خواہشمند نیو مدینہ کے حکمرانوں کی رعایا یہ بھی سن لے کہ نیو ریاستِ مدینہ کی نئی حج پالیسی کیمطابق سرکاری حج اخراجات 60 ہزار روپے اضافہ سے ۵ لاکھ کے قریب ہونے کا امکان ہے۔ گویا حج کرنا جتنا ستّرسالوں میں مہنگا نہیں ہوا اتنا اس حکومتِ عمرانیہ نے صرف ایک سال میں کر دیا ہے۔

 
لیکن گھبرایئے گا نہیں کیونکہ اب تصوف اور روحانیت کا دور دورہ ہو گا اور گھر بیٹھے آنکھیں بند کر کے ہواؤں کے دوش پر مکہ مدینہ جایا جا سکے گا۔ اگر روحانیت کے سمندر میں ڈوبے حکمران زمین پر اترین تو معلوم پڑے گا کہ در بدر مخلوق کہتی پھرتی ہے کہ پچاس لاکھ گھر،ایک کروڑ نوکریاں چھوڑو یہ بتاوبیس کلو والا آٹے کا تھیلا کہاں سے ملے گا۔

صرف دس دنوں میں آٹے کی قیمت میں دس سے بارہ روپے فی کلو کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ باقی اشیائے خورد و نوش تو پہلے ہی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ 
عالمی بینک نے بھی پاکستانی معیشت کو لاحق خطرات سے متعلق رپورٹ جاری کر دی ہے۔ یعنی معاشی ریڈ الرٹ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر نواز شریف دور کی ترقی جاری رہتی تو آج پاکستان ایشیاء کا ترقی یافتہ ملک ہوتا،یہ بھی واضع کیا گیا ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی سے ملک عدم سیاسی استحکام کی جانب بڑھا ہے اور نواز شریف کے جانے سے بے یقینی میں اضافہ ہوا۔

 
ایک غیرملکی سروے رپورٹ بھی ملاحظہ فرمایئے ”81 فیصد پاکستانیوں کے لیے مہنگائی،79 فیصد کے لیے بے روزگاری، 56 فیصد کے لیے بڑھتی غربت سب سے بڑا مسئلہ جبکہ 79 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں ملک غلط سمت جا رہا ہے“ بادشاہ سلامت اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا ملبہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کے سروں پر گرانے کے بعد اب فرمان جاری کر رہے ہیں کہ تعلیمی نصاب میں تصوف کو شامل کیا جائے۔

نہ جانے عمران خان تصوف کے لغوی معنی بھی جانتے نہیں یا نہیں،مگر جن حالات سے وہ نبرد آزما ہیں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کا تصوف سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں۔ ”اللہ والوں کے ُاس گروہ کو صوفی کہا جاتا ہے جس نے حقیقتِ ازلی کی محبت میں خود کو فنا کردیا۔ یہ عشق و عرفان ہی ان اللہ والوں کا اوڑھنا بچھونا بن گیا اور انھیں اس کے علاوہ کسی اور سے غرض نہیں رہی۔

عرفانِ الٰہی کی تعلیمات کو”تصوف“ کا نام دیا گیا ہے۔ تصوف امن و شانتی کا پیغام ہے،جو محبت، اخوت اور بھائی چارہ سے عبارت ہے“ 
اب آپ خود ہی فیصلہ یا طے کیجئے کہ خوفِ خدا کے بغیر کس طرح تصوف کے نام پر اس قوم کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مخالفین سے سیاسی اور ذاتی انتقام لینے کا عمل عمران خان کے تصوف اور صوفی ازم کی از خود نفی کر رہا ہے۔

جبکہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں گوش گزار کر چکا ہوں کہ تبدیلی سرکار نے روحانیت کے نام پر اس ملک میں کیا گل کھلائے ہیں اور کیا کھلائے جا رہے ہیں۔ پہلے بنی گالا اور پھر اب وزیرِ اعظم ہاوس کے چوتھے فلور پر کیا کچھ ہوتا رہا اور پھر ٹک ٹاک ویڈیوز یہ سب تو ایک ہلکی سی جھلک ہے جس سے حکمرانوں کا صوفی ازم جھلک رہا ہے۔ میرا مزاج ایسا نہیں کہ کسی کی کمزوریاں اور برائیاں گن گن کی بتائی جائیں۔

آگے سمجھ داروں کے لیئے یہی اشارہ کافی ہے۔ عمران خان کی روحانیت، تصوف اور صوفی ازم کی بنیاد اور فلسفہ اگر ان کی زوجہ محترمہ یا کسی فرد واحد کی ذاتی سوچ اور خواہشات پر کھڑی ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔ جس ملک میں عوام کو پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیئے روٹی تک میسر نہ ہو،حق و سچ بولنے والوں پر ریاستی اداروں کی جانب سے جبر کیا جاتا ہو، تمام تر کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو چکا ہو،بے روزگاری،مہنگائی اور لاقانونیت اپنے عروج پر ہو،ریاست کے تمام ادارے اپنی فادیت کھو رہے ہوں اور ریاستی ڈھانچہ لڑکھرا رہا،دنیا کی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دنیا میں شنوائی نہ ہو رہی ہو لیکن ملک کا وزیرِا عظم آئے روز سب اچھا ہے کے گیت گا رہا ہو اور چین کی بانسری بجا رہا ہو تو پھر یہی ثابت بھی یہی ہوتا ہے کہ ملک ملنگوں کے اثر میں جا چکا ہے۔

 
ستّر سال گزرنے کے بعد اگر اس ملک کا مقدر ایسی روحیانیت اور تصوف تھا تو بہتر تھا کہ اتنی جدوجہد اوردن رات کی محنت کے بجائے ملکِ پاکستان کی کشتی کو قدرت کے آسرے پر کسی سمندر کی لہروں کی نظر کر دیا جاتا اور پوری قوم تمام تر معاملاتِ زندگی اور کاروبارِ حکومت چھوڑ چھاڑ کر گوشہِ نشیں ہو جاتی۔ 
بدقستی ہے اس ملک کی کہ نواز شریف کی دشمنی اور ضد میں ایک ایسے شخص کو اس بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک کا سربراہ لگا دیا ہے کہ جسے یہ تک معلوم نہیں کہ تصوف کا تعلق دنیا داری سے ہے ہی نہیں۔

کاش کہ کوئی عمران خان کو بتائے کہ اہلِ تصوف اور روحانیت پر یقین رکھنے والے صوفی کسی وزیر اعظمِ ہاوس یا تین سو کنال کے گھر میں نہیں بلکہ کچی زمین پر سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا سیاست سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا، وہ انسان دوست ہوتے ہیں اور ان کے اندر انتقام لینے کا جذبہ کب کا مر کھپ گیا ہوتا ہے۔ اصل روحانیت اور تصوف کی دنیا میں رہنے کے یہی اطوار ہوتے ہیں۔ 
خان صاحب کو اگر اپنے مخالفین سے انتقام لینے اور بد حال قوم کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے سے فرصت ملے تو انہیں مولانا جلال الدین رومی کی تصانیف پڑھنے اور پھر انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ جان سکیں کہ تصوف، روحانیت اور صوفی ازم درِ حقیقت کس بلا کا نام ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :