پاکستان میں سامراج کا ہدف

جمعرات 27 فروری 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

کسی بھی ملک بڑی آبادی یعنی مڈل کلاس طبقہ اور نوجوان نہ صرف ملک کی معیشت کے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی علامت سمجھے جاتے ہیں بلکہ ملک کے دفاع اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیئے بھی نا گزیر تصور کیئے جاتے ہیں ۔ یہ نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہنر مند افرادی قوّت کے بغیر کسی بھی ملک کا نہ دفاع مضبوط ہو سکتا ہے اور نہ ہی معیشت ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے جن ممالک میں معاشی انقلاب برپا ہوا اور جو ممالک دنیا میں فلاحی ریاست کہلائے وہاں مڈل کلاس طبقے اور نوجوانوں نے ہی ہر اوّل دستے کا کردار ادا کیا ۔

یاد رکھئے گا کہ کسی بھی ملک کی الیٹ کلاس کل آبادی کا محض دو فیصد ہی ہوتی ہے جو کبھی بھی انقلاب یا اسٹیٹس کو کی حمایت نہیں کرتی اور کوہلو کے بیل کی مانند زندگی گزارنے والی لوئر کلاس یا ملک کی آبادی کا غریب طبقہ دو وقت کی روٹی کے چکر میں رہ کر اس قابل ہی نہیں رہتا کہ جان سکے کہ انقلاب کس بلا کا نام ہے ۔

(جاری ہے)


ملک کی الیٹ کلاس اور لوئر کلاس یعنی غریب طبقہ عالمی سامراج کا وہ ایندھن ہوتا ہے جس کے باعث اس کی گاڑی کا پہیہ چلتا رہتا ہے ۔

اس لیئے غریب کو غریب رکھنا اور ایلیٹ کلاس کا اسٹیٹس کو قائم رکھنا سامراج کے مفادات کے لیئے ناگزیر ہے ۔ الیٹ کلاس کے زریعے غریب کی غربت کو استعمال کر کے کبھی جہاد کے نام پر کبھی مارشل لاء اور کبھی سب سے پہلے پاکستان کے نام پر عالمی مفادات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک میں اپنے ایجنٹ اور پورے مڈل ایسٹ میں اپنے اپنے بادشاہ کھڑے کر کے عالمی مفادات کا تحفظ تا حال جاری ہے اور کھلی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے ۔

ان ممالک کو تیل اور معدنیات کے بدلے میں گولا بارود دیا جا رہا ہے جسے یہ بھولے ممالک تجارت کا نام دیتے ہیں ۔
عالمی سامراج کی جانب سے کسی بھی ملک کو اپنے مفادات کی خاطر عدم استحکام سے دوچار اور تہ و بالا کرنے کے لیئے ہمیشہ نوجوان نسل اور مڈل کلاس طبقہ کو ہدف بنایا جاتا ہے ۔ ملک کا یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جو شعور بھی رکھتا ہے،اسے پھیلاتا بھی ہے،آگاہی عام کرتا ہے اور اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیئے آواز بھی بلند کرتا ہے ۔

حالیہ چند برسوں میں واضع طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف شعبہ جات میں پاکستان کے مڈل کلاس طبقے اور نوجوانوں کا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آیا ہے،اندورنِ اور بیرونِ ملک پاکستان کے مڈل کلاس طبقے نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے جس باعث دنیا بھر میں ملک کے وقار میں اضافہ ہواجبکہ ملک میں سامراجی ہتھکنڈوں اور چالوں کے حوالے سے عوام کو آگاہی بھی دی گئی اور اس ضمن میں بڑی حد تک ذہن سازی بھی ۔


بڑے کینوس میں بھی اگر دیکھیں تو واضع طور پر نظر آئے کہ تین سال پہلے تک ملک سامراجی غلامی سے آذاد ہو رہا تھا ،تعمیر و ترقی کا نیا باب کھل رہا تھا پاکستان خود کفالت کی جانب تیزی سے گامزن ہو رہا تھا اور عوامی بالا دستی کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ علاقائی سیاست فروغ پاتی دکھائی دے رہی تھی،خطہ کے ممالک آپس میں مضبوط ہو رہے تھے،اور آپس کے باہمی تنازعات ختم ہوتے دکھائی دے رہے تھے ۔

ملک میں یہ ساری تبدیلی با شعور مڈل کلاس طبقے اور ملک کے نوجوانوں کی کوششوں کے باعث ہی ممکن ہو رہی تھی ۔ لہذا مذکورہ طبقے کو لاچار، بے بس اور اپاہج کرنے کی غرض سے سامراجی کھیل کا آغاز کیا گیا ،سو ’’ کرپشن کے خاتمے‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ’’ نیا پاکستان‘‘ کے نام پر واردات ڈال دی گئی جس سے ملک کی چولیں حل کر رہ گئیں اور ملکی معیشت کے لیئے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والا مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ پس کر رہ گیاجو اصل میں نشانہ تھا ۔


ملک کی ستّر سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جس قدر موجودہ وقت میں مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ مشکلات اور اذیت کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھا ۔ حتی کے سابق ڈیکٹیٹر جنرل ایوب خان، ضیاء الحق اورجنرل مشرف کے دور میں بھی موجودہ دور جیسی معاشی تباہی نہیں تھی ۔ مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ کسی نی کسی حد تک مطمعن تھا جس باعث ملکی معیشت رواں دواں تھی ،لیکن سامراجی قوتوں نے پاکستان میں اپنے موجودہ مہروں کے زریعے اس مرتبہ ملک کے مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ پر وہ کاری ضرب لگائی ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔

لہذا یہ کہنا بے نہ ہو گا کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کی مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ جتنا باشعور اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا نظر آئے گا اسی شدت سے وہ عالمی سامراج کے غضب کا نشانہ بنے گا جیسا کی اس وقت پاکستان میں نظر آ رہا ہے ۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ بات انقلاب اور ملکِ پاکستان کے ایشیاء کی ابھرتی ہوئی طاقت سے ہوتی ہوئی ملک میں نافذ سامراجی معاشی پالیسیوں کے طفیل واپس بھینسیں اور مرغیاں پالنے تک آن پہنچی ہے ۔

بلخصوص سامراج کی جانب سے سی پیک منصوبے کی کھلی مخالفت نے تو اس عالمی سازش پر گویا مہر ثبت کر دی ۔ ایسے حالات میں کون ملک کے سامراجی اسٹیٹس کے خاتمے کے بارے میں سوچے گا یا اس حوالے سے عوام میں آگہی پھیلائے گا کیونکہ نوجوان اور مڈل کلاس طبقے کا حدف اب انقلاب نہیں بلکہ اپنی روزی روٹی اور یوٹیلیٹی بلز رہ گئے ہیں ۔
عالمی سامراج نے اپنے اس موجودہ منصوبے یعنی نیس پاکستان کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جس مہرے کا انتخاب کیا وہ اس وقت ہمارے ایٹمی ملک کا وزیرِ اعظم ہے جسے اقتدار کا لالچ دے کر برسوں اس پر سرمایہ کاری کی گئی ملک کے نوجوانوں اور مڈل کلاس طبقے کو’’ تبدیلی‘‘ کی بتی دکھا کر اس کے پیچھے لگا دیا گیا اور اب اس کے ارد گرد ایسے مہرے بٹھا دیئے ہیں جو کسی بھی ملک کا بیڑہ غرق کرنے کے لیئے کافی ہیں پاکستان ان کے سامنے کوئی شے نہیں ۔

گورنر اسٹیٹ بینک،مشیرِ خزانہ اور کئی دیگر مقامی اور امپورٹڈ جس جس طریقے سے اس ملک کی تباہی میں کردار ادا کر رہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔
اس مہرے کے حوالے سے برسوں پہلے شہید حکیم ،سعید آغا شورش کاشمیری اور ڈاکٹر قدیر خان سمیت کئی دیگر دانشور پیشن گوئی کر چکے تھے ۔ اس ضمن میں ملک کے لیئے دردِ دل رکھنے والی مذکورہ شخصیات نے جو نقشہ کھینچا تھا آج وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔

سو اہلِ نظر کے لیئے موجودہ منظر نامہ کوئی انہونی بات نہیں لیکن تعجب اس امر پر ہے کہ یہ سارے سنگین حقائق جانتے ہوئے بھی ملک کے محبِ وطن حلقے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
حالالنکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ایک کمیشن بنے جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ کون کون سے مہرے مذکورہ عالمی سازش کا آلہِ کار بنے جس باعث ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :