
’’ خلقت، دعا اور نظام ‘‘
ہفتہ 28 مارچ 2020

احتشام الحق شامی
میں ایسے احباب سے متفق ہوں لیکن عرض ہے کہ مذکورہ خلقِ خدا کا تعلق شائد ہمارے اس خطہ سے نہیں ہو گا ۔ ایسی خلقت کا تعلق دنیا کے دیگر خطوں سے ہے جو اس سے پہلے بھی قدرتی آفات کو دیکھنے اور سہنے کے بعد نہ صرف راہِ راست پر آئی ، اس کی روزمرہ زندگیوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس نے ماضی میں آنے والی قدرتی آفات اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیئے بہترین حکمتِ عملیاں اور اعلی بندوبست بھی ترتیب دیا ۔
(جاری ہے)
طاعون ، ملیریا،ٹی بی، ٹائیفاءڈ، خسرہ،چیچک اور دیگر کئی موذی امراض جو مختلف ادوار میں خوفناک وباءوں کی صورت میں اس دنیا پر حملہ آور ہوئے اور کروڑوں انسانوں کو نگل گئے،لیکن جو انسان زندہ بچ گئے انہوں نے مذکورہ وباءوں کا علاج دریافت کر کے ان خوفناک آفات کو اپنے پیروں سے مسل کر رکھ دیا ۔
مذکورہ خلقت کرہِ عرض کے اُس خطے میں واقع ہے جہاں ان کی خوش قسمتی سے ِاس خلقت کا وجود نہیں وگرنہ اُس خلقت کے لیئے ایسی ایجادات نا ممکنات میں سے تھا ۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ، یورپ اور ملحقہ ممالک میں لاکھوں لوگ موت کا شکار ہوئے، مذکورہ ممالک کا پورے کا پورا انفراسٹکچر تباہ اور برباد ہو کر رہ گیا لیکن اس خلقت نے مشکل حالات سے سبق سیکھا ۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بہبود اور ان کی جان بچانے کی ادوایات بھی ایجاد کیں ۔ انہیں عقل آئی اور آئندہ جنگ و جدل سے بچنے کے لیئے اور آپس میں پر امن رہنے کے لیئے دیانت داری سے غیر اعلانیہ معاہدہ کیا اور آپس میں باہمی انڈر سٹینڈنگ کی فضاء قائم کی جس کے لیئے ان معاشروں کے راہنماوں نے اجتماعی طور پر محنت کی ،آج یہ ممالک دنیا کے پرامن ترقی اور یافتہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے فیصلہ ساز بھی ہیں ۔
پاکستان اور آذاد کشمیر میں ایک زلزلہ بظاہر آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ میں بھی آیا جو نوّے ہزار انسانوں کی زندگیوں کو نگل گیا( اس زلزلے کی پیشگی اطلاع برطانوی ماہرین کے ایک وفد نے مظفر آباد اور گرد و ونواح کا دورہ کرنے کے بعد کوئی چار برس پہلے ہی دے دی تھی اور پاکستانی حکومت کو خبر دار کر دیا تھا کہ ایبٹ آباد،مانسہرہ،اسلام آباد اور ملحقہ علاقے زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہیں لہذا حفاظتی تدابیر اختیار کر لی جائیں ) لیکن اس خطہ کی خلقت کا بال بھی ٹیڑھا نہیں ہوا اور زلزلہ کے نتیجے میں ایک بہت بڑی تباہی دیکھنے میں آئی ۔ اسی خلقت کے بارے میں آج کل پھر سے کسی مثبت تبدیلی کی امیدیں کی جارہی ہیں ۔ ملاوٹ،جھوٹ،فراڈ،دھوکہ،بد دیانتی اور دیگر پرانی معاشرتی برائیوں میں مبتلا معاشرہ زلزلے سے پہلے والی روش پر بدوستور قائم و دائم دیکھا جا سکتا ہے ۔ جن احباب کا اب بھی اصرار ہے کہ کرونا وائرس کی آ فت اس خلقت کی زندگیوں میں کوئی انقلاب برپا کرے گی وہ اس معاشرے کے موجودہ حالات ہی ایک نظر دیکھ لیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو سکے گا کہ یہاں کی زندگیوں میں کون سی بڑی تبدیلی رونماء ہو گی ؟۔ تمام تر معاشرتی برائیاں بدستور اپنی جگہ موجود ہیں ۔ خلقت ٹس سے مس نہیں ہوئی، اس قدر خوفناک اور موذی وباء کے تیزی سے پھیلنے کے باوجود کوئی خوفِ خدا نہیں اور نہ ہی کسی قسم بڑی تشویش موجود ہے ۔
اب اس خطے کی عظیم خلقت اور اس کے حکمران، برطانیہ، امریکہ، روس، جرمنی، اسرائیل اور چین کی جانب اپنے منہ اٹھا کے دیکھ رہی ہے کہ کب وہ کورونا وائرس کی ویکسین اور دوائی تیار کر کے اسے عطیہ کریں گے اور اسکی باجماعت نمازیں طواف اور عمرے بحال ہوں گے،اس کے بچوں کی منگنیاں ، شادیاں ، نکاح دوبارہ سے شروع ہوں گے ۔ دوست دوسرے دوست سے ہاتھ ملا سکیں گے ، بھائی بھائی سے گلے مل سکے گا ۔ ایران اور سعودیہ کے ویزے دوبارہ کھلیں گے، اس کے شہروں میں مزار اور لنگر کھلیں گے، عرس میلوں پہ رونق لگے گی اورپھر یہ خلقت ان کافر ممالک کی بنائی ہوئی ویکسین استعمال کر کے مساجد میں جائے گی اورجمعہ کی نماز کے بعد اجتماعی طور پر اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرے گی کہ یا اللہ ان کفار،ہنود و یہود کو تباہ و برباد اور نیست و نابود کر دے ۔
جنابِ عالی یہ ہے وہ کردار اور سوچ جس کے باعث اس خطے کی مخلوق کی موجودہ اور آنے والی زندگی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی رونماء نہیں ہونے والی ۔ بے شک کرونا وائرس سے بھی بڑی کوئی آفت کیوں نہ انہیں اپنی لپیٹ میں لے بیٹھے ۔ قدرتی آفات ، مشکلات اور مصائب اس کرہِ عرض کا حصہ ہیں کرونا وائرس جیسی آفات آئندہ بھی آتی رہیں گی ۔ جن کا مقابلہ کرنے اور انسانیت کو بچانے کے لیئے کوئی ٹیکنالوجی ایجاد کرنے سے پہلے کسی بھی خطہ میں موجود افراد کی سوچ کو مثبت کرنے اور ان کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے،جو کسی بھی قوم کے سیاسی ، سماجی اور مذہبی راہنماوں کے فراءض میں شامل ہوتا ہے اور مذکورہ راہنماء اپنا کردار تب ہی ادا کر سکتے ہیں جب خطہ میں سیاسی اور سماجی استحکام کو قائم رہنے دیا جائے تا کہ خطے کی خلقت ذہنی اور فکری طور پر مکمل آزاد اور خود مختار ہو سکے اور اس کے لیئے جمہوری عمل کا تسلسل نا گزیر ہے ۔
جن کافر ممالک کی مثال اوپر بیان کی گئی ہے، قدرتی آفات اور دو بڑی جنگوں کے بعد ان کی قابلِ ذکر ترقی،خوشحالی، وہاں کے عوام کی مثبت سوچ اور نظم و ضبط کی واحد وجہ وہاں جمہوری عمل کا تسلسل ہی تھا جسے جنگوں کے دوران بھی ٹوٹنے نہیں دیا گیا اور مذکورہ ممالک کے مذہبی ،سیاسی اور سماجی راہنماء مسلسل اپنی اقوام کی راہنمائی کرتے رہے ۔ اس لیئے یاد رکھنا ہو گا کہ جمہوریت محض کسی کو ووٹ دے دینے یا نالی اور سڑک بنا لینے والا کوئی نظام نہیں ،یہ وہ نظام ہے جو کسی بھی خطہ کی خلقت کو حکومتی، معاشی، معاشرتی اور ا سکے ملک کو دیگر سسٹم دینے کے علاوہ اس کے مزاج،سوچ،رہن سہن میں مثبت تبدیلی اور دنیا کے ساتھ چلنے کا ڈھنگ بھی سکھاتا ہے ۔
اب اگر کسی کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ پریشانی یا خوف سے پاکستانی خلقت کی سوچ میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی رونماء ہو گی تو وہ کرونا وائرس سے بچاءو کے لیئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملکِ خداداد میں مضبوط جمہوری نظام اور اس کے تسلسل کے لیئے بھی خصوصی دعا کرے۔ جو کرونا وائرس کے علاج جتنا ہی ضروری ہے ( احتشام الحق شامی)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام الحق شامی کے کالمز
-
حقائق اور لمحہِ فکریہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
تبدیلی، انکل سام اورحقائق
بدھ 26 جنوری 2022
-
’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
”صادق امینوں کی رام لیلا“
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
”اسٹبلشمنٹ کی طاقت“
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
ملکی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
کامیاب مزاحمت آخری حل
بدھ 1 ستمبر 2021
-
"سامراج اور مذہب کا استعمال"
جمعہ 27 اگست 2021
احتشام الحق شامی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.