’’ایجنڈا عمرانیہ‘‘ ۔ قسط 2

بدھ 29 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

’’نیا پاکستان‘‘ میں غربت کے خاتمے کے’’ احساس پروگرام‘‘ میں 80 ارب روپے کا اضافہ کرنے کے بعد شنید ہے کہ 2021تک اس میں 120ارب تک کا مذید اضافہ کیا جائے گا بلکہ اسی حوالے سے ایک نئی وزارت قائم کیئے جانے کی اطلاعات بھی ہیں ۔ آگے آپ سمجھ دار ہیں کہ غریبوں کے درد میں ماری پچاس افراد کی بھاری بھرکم کابینہ پر مشتمل تبدیلی سرکار احساس پروگرام کی گنگا میں کون کون نہائے گا اور کس کس کروڑ پتی کی غربت دور ہو گی ۔


حقیقتِ حال یہ ہے کہ ملکی معیشت کی شرحِ نمو منفی ہو چکی ہے جس سبب ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، تعلیم ،صحت اور بنیادی خوراک جیسی اہم ضروریات عام پاکستانی کی پہنچ سے دور اور بد ترین معاشی بدحالی سے عوام الناس کی زندگیوں میں روز بروز مشکلات پید ہو رہی ہیں ۔

(جاری ہے)

ایسے میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی، بجلی، اور گیس سمیت دیگر روزمرہ کی عام اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ’’ احساس پروگرام‘‘ اور اس کے ماہانہ تین ہزار روپے یعنی ایک سو روپیہ یومیہ غریبوں کے منہ پر زور دار طمانچہ سے کم نہیں ۔

ایک سو روپیہ یومیہ سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں افراد کیسے پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتے ہیں ؟ ۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس سال بے روز گاری ،غربت اور خوراک نہ ملنے کے سبب خود کشی کرنے والے افراد کی تعداد میں دو سو گنا اضافہ ہوا ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
بائیس کروڑعوام کے سروں پر مسلط کیئے گئے عمران خان اپنے’’ اسپانسرڈ کنٹینر‘‘ پر کھڑے ہو کرترقی کرتے چین، ترکی، ملائیشیا اور بھارت جیسے ممالک کی مثالیں تو دیتے ہیں لیکن ان ممالک نے جو معاشی اور اقتصادی پالیسیاں اختیار کیں ، عمران خان اس سے عملی طور پر کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ قوم کو بھکاری اور زہنی طور پر معذور بنانے کی پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں ۔

صاف طور پر نظر آتا ہے ’’ نیا پاکستان ‘‘ دَر دَر جا کربھیک مانگنے، ملک کے کارخانے بند کرنے، بَر سرِ روزگاروں کو بے روزگار کرنے اور عوام کو منگتا بنانے کے لیئے بنایا گیا ہے؟
ہم نے دیکھا کہ کبھی لنگر خانے اور کبھی پناہ گاہیں بنانے کے اعلانات کر کے ملک کو نوجوانوں کے حوصلے پست کرنے کے پیغام دیئے گئے ۔ کوئی خان صاحب کو بتائے کہ غربت کا خاتمہ صرف پیسے بانٹنے سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیئے ملک میں روزگار یا ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہوتے ہیں اور ایسا صرف کارخانے،فیکٹریاں اور صنعتیں لگانے سے ہی ممکن ہے ۔

دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ مضبوط معیشت سے ہی ممکن ہوتا ہے جبکہ معیشت آپ سے ملک میں ساز گار سیاسی ماحول، بہترین انفراسٹرکچر، کاروبار کرنے کا سازگار ماحول اور امن و امان مانگتی ہے ۔ اسی لیئے خوشحال معیشت اور معاشی استحکام کسی بھی ملک کے جمہوری اور سیاسی نظام کی کامیابی کی کنجی سمجھی جاتا ہے ۔
اگر خان صاحب اور ان کے معاشی افلاطون یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے’’احساس پراگرام‘‘ کے طفیل ملک سے غربت کا خاتمہ ہو سکے گا تو پھر کوئی بھی غریب ملک آئی اہم ایف سے قرضے پکڑ کر اپنے اپنے غریب عوام کو ماہانہ تین ہزار روپے پکڑا کر انہیں غربت کی چکی سے باہر نکال سکتا ہے تو درِ حقیقت چندے کے سر پر چلنے والے خان صاحب کے اس’’ احساس پروگرام‘‘ سے غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا،غربت میں کمی واقع نہیں ہو سکے گی ۔

غیر ملکی قرضوں اور ڈالر کی قیمت میں ا ضافہ ہو گا ۔ البتہ ان کی زاتی تشہیر اور مشہوری خوب ہو سکے گی جو کہ ان کا اصل مقصد دکھائی دے رہا ہے ۔
ملک سے غربت کم کرنے یا اس کے خاتمے کے لیئے عمران خان کو اپنے دو سالہ اقتدار کے دوران اپنی ہی ناقص اور بے بنیاد پالیسیوں کے سبب بند کیئے گئے کارخانوں ،ملوں ،فیکٹریوں اور روزگار پیدا کرنے والے دیگر صنعتی شعبوں کو دوبارہ چلانے اورایک کروڑ سے زائد تعلیم یافتہ بے روز گار نوجوانوں اور ہنر مندوں کے لیئے نوکریوں کو پیدا کرنے کے لیئے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے لیکن پاکستانی قوم کو تین ہزار روپے ماہانہ یعنی یومیہ ایک سو روپیہ دے کر بھکاری بنانے اور زہنی طور پر معذور کرنے کے بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا وزیرِا عظم عمران خان کیا اتنی بہادری دکھا سکیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :