تہذیب سے عاری پارلیمانی اقدار

منگل 29 جون 2021

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

پچھلے دنوں پاکستان کی قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے موقع پر جو سرکس لگا اور جو بدزبانی و بدتہذیبی کا مظاہرہ قوم کے قانون سازوں کی طرف سے کیا گیا۔اس کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں میڈیا کے توسط سے دیکھا گیا۔اس گالم گلوچ اور مار دھاڑ کی تشہیر پوری دنیا میں ہوئ جس سے پاکستان کے سیاست دانوں کی خوب جگ ہنسائی ہوئی۔
اس اجلاس کے موقع پر اسپیکر اسمبلی کا وہی کردار لگ رہا تھا جو کلاس میں اس مانیٹر یعنی کلاس انچارج کا ہوتا ہے جس کے مخالف اس کی بات ویسے ہی نہیں سنتے اور اس کے لنگوٹیے اور دوست اس کی دوستی کی وجہ سے اس کو خاطر میں نہیں لاتے۔

اس اسمبلی میں جو کہ عوام کے لیۓ قانون بنانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا ادارہ سمجھا جاتا ہے،اس اسمبلی میں جہاں آئین کی پاسداری کی جاتی ہے اور جس کو عوام کے حقوق کا ضامن سمجھا جاتا ہے وہاں عوام کی رہنمائ کرنے والے پڑھے لکھے جاہلوں کی ایسی حرکتیں دیکھ کر ایک لمحے کو تو میں دنگ رہ گیا اور یہ یقین کرنے کو دل ہی نہ کیا کہ کیا یہی وہ منتخب نمائندے ہیں جو عوام کی آواز اور ان کے حقوق کے ترجمان ہیں کیوں کہ اس وقت محض اجڈ اور گنوار سے زیادہ ان کا کوئ نمونہ نہ تھا۔

(جاری ہے)


اسمبلی میں بجٹ پر بحث ہونے کی بجاۓ نت نئ گالیوں کا مقابلہ جاری تھا اور یہ دیکھا جا رہا تھا کہ کون اس دوڑ میں سبقت لیتا ہے۔اسکول کے چھوٹے بچوں کی طرح بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ایک دوسرے پر پھینکی جا رہی تھیں۔اس کام میں اپوزیشن کے علاوہ نۓ پاکستان کا نعرہ لگانے والی حکومت کے اراکین بھی زور و شور سے حصہ لے رہے تھے۔اپوزیشن کا تو ان کے پچھلے ادوار حکومت میں بھی ایسا ریکارڈ موجود ہے مگر زیادہ افسوس اس بات پر ہو رہا تھا کہ وہ وزیراعظم صاحب جن کا نعرہ ہی ریاست مدینہ اور نۓ پاکستان کا تھا، ان کی برسر اقتدار جماعت کے اراکین کی اکثریت بھی اس جاہلیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی اور نیا پاکستان تو درکنار پرانا پاکستان بھی خراب کر رہی تھی۔


مجھے تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شکر ہے ان افراد کے ہاتھ میں کوئ ڈنڈے یا بندوق وغیرہ نہیں ورنہ وہ بھی ایک دوسرے پر چلانے سے گریز نہ کرتے۔افسوس کہ عمران خان صاحب بھی اپنے وعدوں کے مطابق وہ پڑھی لکھی،مہذب اور باشعور اسمبلی پاکستان کو نہ دلا سکے۔حکومت میں ہونے کی وجہ سے حکومتی اراکین کو صبر کا زیادہ مظاہرہ کرنا چاہیۓ اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیۓ۔


اس کے بعد یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ اس کا اثر بلوچستان کی اسمبلی تک بھی جا پہنچا جہاں قومی اسمبلی سے بھی زیادہ بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا اور اراکین،صوبائ اسمبلی کے سامنے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوۓ۔اپوزیشن اور پولیس کے درمیان بھی تصادم ہوا۔وزیراعلی بلوچستان پر بھی اپوزیشن کے کچھ اراکین کی طرف سے حملہ کرنے کی کوشش کی گئ۔

گویا یوں لگ رہا تھا کہ کسی جاہلوں کے ٹولے کا تماشہ دیکھ رہا ہوں۔
ان اراکین اور عوامی نمائندوں کے صبر اور تہذیب کا یہ عالم دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو چاہیۓ کہ ان کا اپنے حلقوں میں خود احتساب کریں کیوں کہ اور تو کسی سے بھی امید نہیں ہے۔نۓ پاکستان کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم شاید ایسی بدتہذیبی کو بھی نۓ پاکستان کا حصہ ہی مانتے ہوں۔

عوام کو خود اپنے اوپر ایسے رہنما مسلط کرنے ہوں گے جو اگلی نسل کے لیۓ مشعل راہ ہوں اور دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے والے ہوں۔
یہ بات بھی ان گالی اور عدم برداشت کی سیاست کرنے والوں کو یاد رکھنی چاہیۓ کہ جو یہ بو رہے ہیں وہی ان کی آنے والی نسل کاٹ گی۔موجودہ وزیراعظم پاکستان کا ایسے واقعات پر خاموش رہنا یا رسمی کاروائی کے طور پر مذمت کر دینا جب میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش خان صاحب اپوزیشن میں ہی رہتے تو کم از کم دھڑلے سے بولتے تو سہی اور ان کے بولنے کی وجہ سے حکومت بھی ٹھیک کام کرتی رہتی۔اگر ایسا نیا پاکستان ہے تو یقین کریں کہ ایسا نیا پاکستان جو کہ تہذیب اور صبر سے عاری ہو وہ بالکل نہیں چاہیۓ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :