پاکستان کی روحانی طاقتیں

جمعہ 10 جولائی 2020

Altaf Satti

الطاف ستی

کوئی یہ بات مانے یا نہ مانے لیکن پاکستان اللہ کے معجزوں میں سے ایک معجزہ ہے اتنا ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ سھنے کے بعد بھی پاکستان اپنے قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک دنیا کے نقشے پر قائم ہے نہ صرف بفضل خدا قائم و دائم ہے بلکہ دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا بھی ہے
پاکستان کے ساتھ ظلم و زیادتی قیام پاکستان سے ہی شروع ہو گئی تھی اور ملک کے اندر ملک دشمن طاقتوں نے اپنا جال بچھانا شروع کر دیا تھا مگر کہتے ہیں کہ جسے اللہ اپنی حفاظت میں رکھے اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان پہنچا نہیں سکتی  میں جب  بچپن میں ملک کے اندر لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کو دیکھتا تھا تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ آخر اس ملک کا کیا ہوگا اسی پریشانی کے عالم میں زندگی کے کئی سال بیت گئے ہیں مگر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہا کی آخری ملک کا نظم و نسق اور نظام ملوکئت  کیسے چلتا ہے
میں نے اپنے بزرگوں سے اور اپنے مطالعے سے اس بات کو جانا ہے کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں پاک فوج کے جوانوں نے انتہائی بہادری اور شجاعت کا مقابلہ کیا اور دشمنوں کے دانت کھٹے کے ہیں ایسےکہی مقامات پر پاک فوج کے جوانوں نے اتنی بہادری اور شجاعت سے لڑائی کی کہ دشمن کے فوجی بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے یعنی کہ روحانی طاقتں بھی پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑ رہی تھی اور پاک فوج کی بھرپور مدد کر رہی تھی
علاوہ ازیں میں نے کئی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں پاک فوج کے جوانوں کی بہادری کے علاوہ اللہ پاک کی مدد بھی ساتھ تھی
ذاتی طور پر میرا اس بات پر کئی سالوں سے مکمل یقین ہے کہ پاکستان کو بچانے اور چلانے والی کوئی طاقتیں موجود ہیں جو اس ملک کے نظم ونسق چلا رہی ہیں
آپ اس بات کو یقین مانیں کہ اگر یہ ظلم و ستم اور لوٹ کھسوٹ کسی بھی ملک کے ساتھ ہوتا تو یقین مانے کہ وہ ملک صفحہ ہستی سے اب تک ختم ھو چکا ہوتا
آپ میری اس بات پر یقین کریں یا نہ کریں یا اتفاق کریں نہ کریں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے لیکن میرا اس بات پر مکمل  ایمان ہے کہ پاک فوج کی شجاعت اور اس کا رعب اور دبدبہ دشمن کی فوج میں اتنا زیادہ سرایت کر چکا ہے کہ وہ کبھی بھی پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے
 ہاں یہ بات تو ضرور ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف ہر وقت تانے بانے بنتے رہتے ہیں اور ہر وقت سازشوں میں مصروف رہتے ہیں تاکہ پاکستان اندرونی طور پر اتنا کمزور ہو جائے کہ وہ آسانی سے اس کو جھپٹ سکیں
 کیا آپ کو 1984 کا اسرائیل کا وہ واقھہ یاد نہیں جب اسرائیلی طیارے ہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل سے آئے تھے اور ناکام واپس لوٹ گئے تھےاسی طرح پچھلے سال بالاکوٹ کا واقعہ تو سب کو یاد ہی ہوگا جس میں انڈین طیارے افراتفری کے عالم  میں ایک جنگل میں سارا پےلوڈ پھینک کر بھاگ گئے تھے
ہم روزمرہ کے معاملات میں بڑی بے فکری سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ ہمارا دشمن 24 گھنٹے اور کئی سالوں سے ہمارے ملک کے پیچھے پڑا ہوا ہے مگر پاکستان کے بے نام سپاہیوں کو داد دینی پڑے گی کہ جو چوبیس گھنٹے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے علاوہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں ہم جب پاکستان اور انڈیا کی جنگ کی بات کرتے ہیں تو ہمیں غزوہ ہند یاد آجاتا ہے اور حضور پاک کی حدیث بھی غزوہ ہند کے بارے میں یاد آتی ہے جو کہیں سو سال پہلے بیان کی گئی تھی
قارئین جب یہ پڑھتے ہیں کہ غزوہ وہ ہوتا ہے جس میں حضور پاک کی شمولیت اور صحابہ کرام کی شمولیت تھی تو یہ کیسا غزوہ ہند ہوا مگر پھر یہ جواب آتا ہے کہ غزوہ ہند میں تمام روحانی طاقتیں شانہ بشانہ پاک فوج کے ساتھ ہوں گے  تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر روحانی طاقتیں غزوہ ہند کے وقت پاکستان کی حفاظت کر رہی ہو گئی تو کیا یہی روحانیت کے اس وقت پاکستان کی حفاظت نہیں کر رہی مانا کے پاکستان کے اندر بہت سارے معاشرتی مسائل ہیں جن میں جھوٹ فراڈ چوری ڈاکہ اور دیگر مسائل بھی موجود ہیں لیکن اگر پاکستان کی سرزمین پر روحانیت کو محسوس کرنا ہے تو آپ کو وہ دل و دماغ چاہیےجس سے آپ اس سرزمین پر روحانیت کو محسوس کر سکیں
اگر آپ نے روحانیت محسوس کرنی ہے تو سرحدوں پر جاکر ان بے خوف سپائوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں جو 24 گھنٹے آپ کی سرحد کی حفاظت کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمنوں کے آگے کھڑے ہیں
سرحدوں کے جوانوں سے ملنے کے بعد آپ کے اندر جذبہ جہاد کا ایمان بھی جاگ اٹھے گا اور آپ اس ملک پر مرنے مٹنے کو تیار ہو جائیں گے اور اسی روحانیت نے دشمنوں کو اتنی جرت نہیں دی کہ وہ ہماری سرحد کو عبور کر کے ہم پر حملہ آور ہو
یہی وہ روحانیت ہے جس نے تہھتر سال پاکستان کے وجود کو برقرار رکھا ہے اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب غزوہ ہند کا آغاز ہوگا اور ہمارا ہر سپاہی غزوہ ہند میں اس روحانیت کے تحت حصہ لے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :