کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید۔تمغہ بسالت

جمعرات 6 اگست 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

سیالکوٹ  شہر نے جہاں  بڑے بڑے سیاست داں، شاعر، فلسفی، لیڈر، ناول نگار، قلم کار، اداکار و موسیقار، کھلاڑی، صحافی، مصنف اور بزنس مین پیدا کیے ہیں جن پہ بلاشبہ پورے ملک کو فخر ہے وہاں وطن کی خاطر جان نچھاور کرنے والے شہداء بھی پیدا کیے ہیں۔ سیالکوٹ   کی اہم  شخصیات میں شاعرِ مشرق، مفکرِ پاکستان اور عظیم فلسفہ داں، ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال۔

پاکستان کے قومی نعرے کے خالق  پروفیسر اصغر سودائی، مسلم اسکالر و مشہور لیڈر، مولانا عبید اللہ سندھی، عظیم انقلابی شاعر، فیض احمد فیض، پاکستانی ایئر چیف، ایئرمارشل ظفر چوہدری، بھارتی جرنلسٹ۔ کلدیپ نائر، اردو شاعر اور مصنف امجد اسلام امجد، صوفی رائٹر، بابا محمد یحییٰ خان ، پاکستانی فلم انڈسٹری کے ہیرو، وحید مراد ،مشہور مصنفہ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار، عمیرہ احمد، پاکستان کرکٹ ٹیم کے اہم کھلاڑی، شعیب ملک، پاکستانی کرکٹر ظہیر عباس، خواجہ محمد صفدر اور چاچا کرکٹ چوہدری عبد الجلیل قابلِ ذکر ہیں۔

(جاری ہے)

۔ان کے علاوہ بھی بے شمار شخصیات مختلف شعبوںمیں خدمات  سر انجام دے رہے ہیں۔تاریخی طور پر یہ شہر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ 1965 کی جنگ میں بھارت نے جموں کی طرف سے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج نے کامیابی سے شہر کا دفاع کیا اور سیالکوٹیوں نے بے جگری سے اپنی فوج کا ساتھ دیا۔ غیور شہری بھارتی ٹینکوں کے سامنے بم باندھ کر لیٹ گئے اور چونڈہ کے محاذ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔

یہ وہ محاذ ہے جہاں جنگِ عظیم دوئم کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔ اہلِ سیالکوٹ کی بہادری کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1967 میں سیالکوٹ کے باسیوں کو ”ہلالِ استقلال” سے نوازا (اہلیانِ لاہور اور سرگودھا کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے)۔ 1971 کی جنگ میں بھی سیالکوٹ کا بھرپور دفاع کیا گیا یہاں تک کہ بھارتی علاقے ”چھمب سیکٹر” پر پاک فوج کا قبضہ ہو گیا۔

اسی شہر کے ایک ہونہار طالب علم اور پاکستان آرمی کے آفیسر  کیپٹن خواجہ محمد سروش تھے۔ جن کے جذبات  سیاچین کے برف پوش   پہاڑوں پر سرد نہ پڑے اور ان کا جواں خون گرم رہا ۔کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید  18 مئی 1970 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ شہید کیپٹن سروش نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے عسکری  تربیت حاصل کرنے کے بعد 1990 میں 77  فیلڈ رجمنٹ آرٹلری میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ شمولیت کی اور دنیا کے  بلند ترین محاذ پر دشمن کے ساتھ بہادری سے لڑے۔

اور  19 ،اگست  1994 کو دشمن کی گولہ باری کے دوران  جام شہادت نوش کیا ، شہیدکو  ان کی بہادری کے عوض تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔کیپٹن سروش شہید کے نام   سے سیالکوٹ شہر میں ایک سکول ایک پارک،ایک روڈ، سیالکوٹ کینٹ میں ایک چیک پوسٹ، ایک مسجد اور سیاچن پر آرٹلری گن پوسٹ   منسوب ہے۔ کیپٹن سروش شہید فیڈرل گورنمنٹ ہائی سکول  کے ایک ذہین طالب علم تھے۔

اور ان کے شاندار تعلیمی ریکارڈ  اور پاک فوج میں بہادری اور فرض شناسی  کے کارناموں کو نئی نسل سے  روشناس کرانے  کے لئے  بورڈ  کے امتحان میں  نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو  سروش شہید میڈل دیے جاتے ہیں۔
لازوال نعرۂ پاکستان، "پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہ الا اللہ" کے خالق، ماہرِ تعلیم اور شاعر پروفیسر اصغر سودائی سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔

قائدِ اعظم خود بھی اصغر سودائی کے نعرے کی اہمیت کے قائل تھے اور ایک بار انہوں نے فرمایا تھا کہ "تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے"۔ پروفیسر اصغر سودائی نے بھی  کیپٹن سروش شہید کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔انہوں نے " شہر اقبال کا بہادر شہید" کے نام سے لکھا ہے کہ
"مسلمان جب خم ٹھونک کر میدان جہاد میں نکلتا ہے  اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے دشمن کے  دل تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے دل میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ  اپنی جان کو جان آفریں  پر نچھاور کر کے  اس کی جلوہ گاہ خاص میں  اعلی و ارفع مقام حاصل کر لے۔

اسے نہ دنیا کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کے مال و منال  کی وہ تو ہر دم ہر لحظہ  اور ہر آن اس تگ و دو میں رہتا ہے کہ وہ غنیم پر حملہ کرے اس کی صفوں میں انتشار پیدا کرے  اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک  اس کا قلع قمع نہ ہو جائے۔میرے نزدیک ایسے وطن پر جان دینا جس کی اساس کلمہ توحید  پر قائم کی گئی ہو  اور جس کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا گیا ہو کہ وہ ایک اعتبا ر سے میراث رسولؐ ہے۔

اور اس کا تحفظ، اس کا دفاع اور اس کا وجود اعلائےکلمتہ الحق کا اثبات ہو ہر لحاظ سے مرتبہ شہادت  پر فائز ہونے کے مترادف ہے۔لہذا پاکستان کی آبرو  اور وقار کو جلا دینے کے لئے  جن جن بہادران وطن نے  اپنا لہو دیا اور عظمت کے اس معیار کو مضبوط بنانے کی کوشش کی  وہ حق و صداقت کے پیامبر ہیں اور شہید ہو کر زندہ و جاوید ہو گئے ہیں۔ہمارے شہر کا ایک خوبصورت، تنومند، پر جلال اور شکوہ قلندر کا حامل  کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید  بھی ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جو جام شہادت نوش کر کے  بقائے دوام کی مسند پر براجمان ہو جاتا ہے۔

زندگی بلاشبہ ایک نعمت ہے اور اس نعمت کو غیر مرقبہ اور لازوال بنانا ہو تو  اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں کہ  اسے خدا کی راہ میں نذرانے کے طور پر پیش کر دیا جائے اور دنیا پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ ایک جان تو کیا  اگر ہزار جانیں بھی ہوں تو  وہ وحدہ لاشریک کے نام پر نچھاور کر دی جائیں۔ذرا تصور میں لائیں اس شہزادے کو جو  شکوہ خسروی اور اہل پاکستان کے لئے  نشان عظمت و استقلال تھا۔

جو ہر لحظہ اسی  سوچ میں  رہتا تھا کہ کس طریقے سے دفاع  کو مضبوط کیا جائے۔کس طرح قلیل سامان حرب و ضرب ہوتے ہوئے اس قلعہ اسلام کی حفاظت کی جائے۔کس طرح دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا دیا جائے اورکس طرح اس خطہ پاک کی عصمت پر آنچ نہ آنے دی جائےتو آپ کو اس کی گراں قدر قربانی، اس کے والہانہ اور بہادرانہ  عزم ،اس کے ارادوں کی  بلندی اور مجاہدانہ اضطراب کی تمام صورتیں ایک ایک کر کے  نگاہوں میں ابھرنا شروع ہو جائیں گی۔

ہمیں ،آپ کو ، اس کے والدین کو  اور تمام پاکستانیوں کو اس کے زندہ و جاوید  ہونے پر فخر ہے۔ وہ آج بھی زندہ ہے، ماضی میں بھی زندہ تھا، اور مستقبل میں بھی زندہ رہے گا اور ہر آنے والے سپاہی کے لئے ہمت و بسالت  کا ایک ایسا انمول خزانہ ثابت ہو گا کہ جس کی مثال ملنا محال ہے۔میں سلام کرتا ہوں اس شہید کو ، اس کے عزیزو اقارب کو  بالخصوص اس کے والدین کو  جنہوں نے اسے اپنی گود میں پالا،جوان کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ  تاریخ کا ایک  تابندہ ستارہ بن کر  افق روزگار پر چمکتا رہے"۔

میں  سمجھتا ہوں  کہ  پروفیسر اصغر سودائی نے  کیپٹن خواجہ محمد سروش شہید   کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام شہداء کی عظمت کو اپنے مخصوص انداز میں بہترین  خراج تحسین پیش کیاہے۔اور بعد میں ہونے والے شہداء نے  ان لفاظ کا بھرم اپنے خون کی سیاہی سے رکھا ہے۔  2011 میں سیالکوٹ میں کیپٹن سروش شہید کے والد اور بھائی سے میری ملاقات ہوئی اور ملک پاکستان کے لئے شہید کے والد کے جذبات دیدنی تھے۔اور شہید کا خاندان اس کی شہادت پر فخر محسوس کرتاہےہمیں  یقین ہے کہ جب تک پاکستان کی مائیں ایسے بیٹوں کو جنم دیتی رہیں گی دشمن کے ناپاک ارادے خاک میں ملتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :