
مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام
منگل 25 مئی 2021

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
یہی یکجہتی اور حمایت جموں کشمیر کے عوام کے لئے بھی ہوتی ہے جو کہ بے معنی ہے۔
دنیا میں جنگ و جدل اور فساد کی اصل جڑ برطانیہ ہے جس نے ایک طرف کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر برصغیر کو چھوڑا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا خون ہوا اور آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ کشمیری محکوم اور پاکستان اور بھارت حالت جنگ میں ہیں۔ برطانیہ جس نے سو سال سے زائد برصغیر پر حکومت کی اگر وہ جموں کشمیر کا مسئلہ حل کرکے برصغیر کا چھوڑتا تو آج وہاں امن ہوتا۔دوسرا مسئلہ فلسطین بھی برطانیہ کا پیدا کردہ ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے 2 نومبر 1917 کو بالفور ڈیلیریش کے ذریعہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے قیام میں عرب بھی برابر کے شریک ہیں۔ پہلی عالمی جنگ سے قبل فلسطین اور مشرق وسطی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ ان عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی مدد کی اور سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں اور برطانیہ کی جانب اس خطے کا جغرافیہ تبدیل کرنے یہاں تک کہ اسرائیل کے قیام میں مفاہمت کی۔ اسرائیل کے قیام کے خود فلسطینی بھی ذمہ دار ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کے قیام کے لئے جب یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جانے لگا تو فلسطینیوں نے دولت کے لالچ میں اپنی زمینیں خود یہودیوں کو فروخت کیں۔ اسرائیل کی طاقت علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ہے لیکن اس کے مدمقابل عرب اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اسرائیل کی ایک یونیورسٹی دنیا کی ایک سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہے جبکہ تمام مسلم ممالک کی ایک یونیورسٹی بھی اس فہرست میں شامل نہیں۔ تن آسانی اور بے عملی اپنے نتائج ضرور پیدا کرتی ہے جبکہ بقول علامہ اقبالتقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
صہونیت کی بنیاد پر 14 مئی 1948 کواسرائیل کا قیام کا اعلان ہوا تو عرب ممالک نے جنگ شروع کردی لیکن سب نے شکست کھائی۔۔ اقوام متحدہ نے جتنا علاقہ اسرائیل کے لئے جتنا رقبہ مختص کیا تھا اس نے اس سے دوگنا ہتھیا لیا۔اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کی بیاد پر دو ریاستی حل تجویز کیا۔ اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کردیا لیکن فلسطین کے قیام کا اعلان ہونے کی بجائے مغربی کنارہ اردن کے پاس اور غزہ مصر کے پاس چلا گیا، حالانکہ ان دونوں علاقوں پر مشتمل فلسطینی ریاست کا اعلان ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد 1956، 1967 اور 1973 کی جنگوں میں بھی عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل کے رقبہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ مصر نے چار جنگیں لڑ کر دیکھ لیا کہ اسرائیل سے جیتنا ممکن نہیں تب مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل سے صلح کا فیصلہ کیا اور 18 مئی 1978 کو دونوں ممالک میں کیمپ ڈیوڈ معائدہ ہوگیا۔ اگر اس وقت عرب ممالک اور فلسطین کیمپ ڈیوڈ معائدہ میں شامل ہوجاتے تو کہیں بہتر شرائط پر معائدہ ہوتا لیکن انہوں نے اس بائیکاٹ کیا بلکہ مصر کو عرب لیگ سے بھی نکال دیا لیکن آخرکار فلسطینی قیادت کو اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے اور تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔
اسرائیل اور فلسطینی قیادت ستمبر 1994 اوسلو امن معاہدہ تو ہو گیا لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا، فلسطینیوں کی جدوجہد جاری رہی جس میں انتفاضہ تحریک بھی شامل ہے اور دوسری جانب اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں جاری رہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی اپنے وطن میں بے وطن ہیں۔ چیک پوسٹوں، رکاوٹوں اور دیواریں کھڑی کرکے انہیں انہیں نہ صرف بے توقیر کیا جاتا ہے بلکہ احساس دلایا جاتا ہے اب یہ ان کا وطن نہیں ہے۔میری دانست میں عربوں اور فلسطینیوں اگر پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کے خلاف برطانیہ کا ساتھ نہ دیتے، پھر 1948 میں اقوام متحدہ کے غیر منصفانہ سہی، فیصلہ کو قبول کرلیتے یا پھر 1978 میں مصر کے ساتھ مل کر کیمپ ڈیوڈ معائدہ میں شامل ہوجاتے تو کہیں بہتر حالات میں ہوتے۔ جولائی 2000 میں کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر کلنٹن کی معاونت میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور فلسطینی قائد یاسر عرفات کے درمیان مذاکرات کی ناکامی سے شائد آخری موقع ضائع ہوا اور امن کا راستہ کھوگیا۔افسوس یہ بھی ہے کہ جن مسلم اور عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں، انہیں کم از کم فلسطینیوں کے کچھ حقوق ضمانت لینے کے بعد ایسا کرنا چاہیے تھا۔ دوسری جانب فلسطینی خود بھی متحدہ نہیں۔ غزہ میں حماس کی حکومت ہے جبکہ مغربی کنارہ میں الفتح کی۔ آج اسرائیل کے 90 ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ جن میں مسلم ممالک البانیہ، ترکی، اردن، قازقستان، ازبکستان، مصر، بوسنیا، سینگال، مراکش، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین، ترکمانستان، نائجیریا، سینگال اور آذربائیجان شامل ہیں۔ حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ یحییٰ ابراہیم کا کہنا ہے کہ جنگ ہمارے مفاد میں نہیں۔ کون ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرے گا۔
عرب اور دیگر مسلم ممالک کو کو ایک متحدہ موقف اپنانا چاہیے اور پھر اسرائیل سے تعلقات کا انحصار فلسطینی عوام کے حقوق سے مشروط ہو۔ حماس اور الفتح کو متحدہ ہونا چاہئے۔مسلم دنیا اپنی موثر خارجہ پالیسی بنائے۔ محکوم مسلمانوں جن میں جموں کشمیر، روہنگا، چین میں ایغور مسلمانوں اور دیگر جہاں جہاں بھی وہ مشکلات کا شکارہیں ان کے لئے بھر پو ر کوشش کی جائے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنایا جائے ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدا ن میں ترقی جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے اہل قلم، میڈیا، سیاست اور حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے اور عوام رائے عامہ کی بیداری میں اپنا کردار ادا کریں۔ صدیوں کا زوال ختم ہونے میں بھی وقت لے گا جس کے لئے بھرپور کوشش ہونی چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.