مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام

منگل 25 مئی 2021

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ظالمانہ اور وحشیانہ کاروائی جاری ہے اور اس کے حواری ممالک کی جانب سے اس کے جرائم پر چشم پوشی بلکہ حمایت کسی سی ڈھکی چھپی نہیں۔ نام نہاد مہذب ممالک کے حقوق انسانی کے دعویٰ منافقت اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول جاری ہے۔ انہیں آپ کیا کہہ سکتے ہیں لیکن مسلم ممالک کیا کریں جن کا طرز عمل بھی اسرائیلی حمایتی ممالک سے کم نہیں۔

اسلامی کانفرنس اور عرب ممالک نیم دلانہ بیانات دیتے ہیں جن کا اسرائیلی قیادت مذاق اڑاتی ہے۔ اکا دکا مسلم ممالک جو اس حوالے سے سنجیدہ ہیں ان کی کوشش بھی یکجہتی کے بیانات اور تقریروں تک محدود ہے جس کا 70 سال سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی اسرائیل کو اس سے کوئی فرق پڑا ہے۔

(جاری ہے)

یہی یکجہتی اور حمایت جموں کشمیر کے عوام کے لئے بھی ہوتی ہے جو کہ بے معنی ہے۔

دنیا میں جنگ و جدل اور فساد کی اصل جڑ برطانیہ ہے جس نے ایک طرف کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر برصغیر کو چھوڑا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا خون ہوا اور آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ کشمیری محکوم اور پاکستان اور بھارت حالت جنگ میں ہیں۔ برطانیہ جس نے سو سال سے زائد برصغیر پر حکومت کی اگر وہ جموں کشمیر کا مسئلہ حل کرکے برصغیر کا چھوڑتا تو آج وہاں امن ہوتا۔

دوسرا مسئلہ فلسطین بھی برطانیہ کا پیدا کردہ ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے 2 نومبر 1917 کو بالفور ڈیلیریش کے ذریعہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ اسرائیل کے قیام میں عرب بھی برابر کے شریک ہیں۔ پہلی عالمی جنگ سے قبل فلسطین اور مشرق وسطی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ ان عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی مدد کی اور سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کرکے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں اور برطانیہ کی جانب اس خطے کا جغرافیہ تبدیل کرنے یہاں تک کہ اسرائیل کے قیام میں مفاہمت کی۔

اسرائیل کے قیام کے خود فلسطینی بھی ذمہ دار ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کے قیام کے لئے جب یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جانے لگا تو فلسطینیوں نے دولت کے لالچ میں اپنی زمینیں خود یہودیوں کو فروخت کیں۔ اسرائیل کی طاقت علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ہے لیکن اس کے مدمقابل عرب اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اسرائیل کی ایک یونیورسٹی دنیا کی ایک سو بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہے جبکہ تمام مسلم ممالک کی ایک یونیورسٹی بھی اس فہرست میں شامل نہیں۔

تن آسانی اور بے عملی اپنے نتائج ضرور پیدا کرتی ہے جبکہ بقول علامہ اقبال
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!
صہونیت کی بنیاد پر 14 مئی 1948 کواسرائیل کا قیام کا اعلان ہوا تو عرب ممالک نے جنگ شروع کردی لیکن سب نے شکست کھائی۔۔ اقوام متحدہ نے جتنا علاقہ اسرائیل کے لئے جتنا رقبہ مختص کیا تھا اس نے اس سے دوگنا ہتھیا لیا۔

اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کی بیاد پر دو ریاستی حل تجویز کیا۔ اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کردیا لیکن فلسطین کے قیام کا اعلان ہونے کی بجائے مغربی کنارہ اردن کے پاس اور غزہ مصر کے پاس چلا گیا، حالانکہ ان دونوں علاقوں پر مشتمل فلسطینی ریاست کا اعلان ہونا چاہیے تھا۔ اس کے بعد 1956، 1967 اور 1973 کی جنگوں میں بھی عربوں کو شکست ہوئی اور اسرائیل کے رقبہ میں اضافہ ہوتا گیا۔

مصر نے چار جنگیں لڑ کر دیکھ لیا کہ اسرائیل سے جیتنا ممکن نہیں تب مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل سے صلح کا فیصلہ کیا اور 18 مئی 1978 کو دونوں ممالک میں کیمپ ڈیوڈ معائدہ ہوگیا۔ اگر اس وقت عرب ممالک اور فلسطین کیمپ ڈیوڈ معائدہ میں شامل ہوجاتے تو کہیں بہتر شرائط پر معائدہ ہوتا لیکن انہوں نے اس بائیکاٹ کیا بلکہ مصر کو عرب لیگ سے بھی نکال دیا لیکن آخرکار فلسطینی قیادت کو اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے اور تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔


اسرائیل اور فلسطینی قیادت ستمبر 1994 اوسلو امن معاہدہ تو ہو گیا لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا، فلسطینیوں کی جدوجہد جاری رہی جس میں انتفاضہ تحریک بھی شامل ہے اور دوسری جانب اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیاں جاری رہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی اپنے وطن میں بے وطن ہیں۔ چیک پوسٹوں، رکاوٹوں اور دیواریں کھڑی کرکے انہیں انہیں نہ صرف بے توقیر کیا جاتا ہے بلکہ احساس دلایا جاتا ہے اب یہ ان کا وطن نہیں ہے۔

میری دانست میں عربوں اور فلسطینیوں اگر پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کے خلاف برطانیہ کا ساتھ نہ دیتے، پھر 1948 میں اقوام متحدہ کے غیر منصفانہ سہی، فیصلہ کو قبول کرلیتے یا پھر 1978 میں مصر کے ساتھ مل کر کیمپ ڈیوڈ معائدہ میں شامل ہوجاتے تو کہیں بہتر حالات میں ہوتے۔ جولائی 2000 میں کیمپ ڈیوڈ میں امریکی صدر کلنٹن کی معاونت میں اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور فلسطینی قائد یاسر عرفات کے درمیان مذاکرات کی ناکامی سے شائد آخری موقع ضائع ہوا اور امن کا راستہ کھوگیا۔

افسوس یہ بھی ہے کہ جن مسلم اور عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں، انہیں کم از کم فلسطینیوں کے کچھ حقوق ضمانت لینے کے بعد ایسا کرنا چاہیے تھا۔ دوسری جانب فلسطینی خود بھی متحدہ نہیں۔ غزہ میں حماس کی حکومت ہے جبکہ مغربی کنارہ میں الفتح کی۔ آج اسرائیل کے 90 ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ جن میں مسلم ممالک البانیہ، ترکی، اردن، قازقستان، ازبکستان، مصر، بوسنیا، سینگال، مراکش، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین، ترکمانستان، نائجیریا، سینگال اور آذربائیجان شامل ہیں۔

حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ یحییٰ ابراہیم کا کہنا ہے کہ جنگ ہمارے مفاد میں نہیں۔ کون ایٹمی طاقت سے لیس ملک کا غلیل سے مقابلہ کرے گا۔
عرب اور دیگر مسلم ممالک کو کو ایک متحدہ موقف اپنانا چاہیے اور پھر اسرائیل سے تعلقات کا انحصار فلسطینی عوام کے حقوق سے مشروط ہو۔ حماس اور الفتح کو متحدہ ہونا چاہئے۔مسلم دنیا اپنی موثر خارجہ پالیسی بنائے۔

محکوم مسلمانوں جن میں جموں کشمیر، روہنگا، چین میں ایغور مسلمانوں اور دیگر جہاں جہاں بھی وہ مشکلات کا شکارہیں ان کے لئے بھر پو ر کوشش کی جائے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنایا جائے ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدا ن میں ترقی جائے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے اہل قلم، میڈیا، سیاست اور حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے اور عوام رائے عامہ کی بیداری میں اپنا کردار ادا کریں۔ صدیوں کا زوال ختم ہونے میں بھی وقت لے گا جس کے لئے بھرپور کوشش ہونی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :