بے سکونی کا سبب

جمعرات 10 جون 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

سردی کی تاریک اور لمبی راتوں میں جب کتوں کی بھونکنے کی آوازیں آتی تھی تو ہم ڈر جاتے تھے۔ سہم جاتے تھے۔ کیونکہ بڑے بزرگ بولتے تھے ۔ کتے چوروں کو دیکھ کے بھونکتے ہیں۔ ہم سمجھتے چور اگئے اسلیے یہ بھونک رہے ہیں۔ ہم رضائی میں دب جاتے تھے تاکہ ان کی آوازیں نہ سنے،یہ بعد میں پتہ چلا کہ کتوں کا کام ہے بھونکنا ، وہ چوروں پر بہت کم جب کے امانت داروں،  سچے ، اور دیانت دار لوگوں پر زیادہ بھونکتے ہیں۔

اس میں سبق تھا ایک راز تھا جو ہمارے بڑے بزرگ ہمیں سمجھنا چاہتے تھے لیکن ہم نہ سمجھے۔۔۔۔  
گرمیوں کی گرم راتوں میں جب ہم صحن میں کھولے اسمان کے نیچے سوتے تھے   ۔ تو ہمارا کام ہوتا تھا۔ تاروں کے گروپس تلاش کرنا ، چلتے ہوئے ستاروں، جو بعد میں پتہ چلا کہ سیارے اور شہاب ثاقب ہوتے ہیں کو گننا، ہمارا بڑا مشغل ہوا کرتا تھا۔

(جاری ہے)

چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھ کے ان کے طرح بننا ایک خواب تھا ایک گول تھا۔

اور یہ سوچتے تھے کہ کیوں کچھ ستارے زیادہ چمکتے ہیں اور کچھ کم۔۔۔۔   
عید الفطر ہمارے لئے ایک  عظیم الشان خوشی اور مسرت لے کے اتا تھا۔ بڑے بزرگ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے کپڑے سلوانے  کے لئے دے دیتے تھے۔ جو پندرہ بیس رمضان تک تیار ہو کے اجاتے تھے۔ اور اس کے بعد ہمارا اکثر یہ مصروفیات ہوتی تھی۔ اس کو پہنا اور چارپائیوں پر چلنا تاکہ جوتے پرانے نہ لگے مٹی سے محفوظ رہے۔


زندگی رواں دواں تھی غربت تھی مال کی کمی تھی ، گاڑیاں وغیرہ نہیں تھی لیکن شکر کی کثرت تھی۔ اکثر لوگ پرانے  زمانے کو یاد کر کے ارمان کرتے ہیں،  ایک خواہش ہوتی ہے ہر کسی کی کہ وہ زمانہ پھر لوٹ آئے لیکن کوئی پرانے لوگوں کی طرح  بننا نہیں چاہتا ، صرف بس وہ پرانی باتیں پرانا ماحول یاد کر کے روتا ہے۔
آج الحمد للہ ہر گھر میں گاڑی، موٹرسائیکل، سائیکل ہے ،رہنے کے لئے سب کا الگ کمرہ ، کمرے میں پنکھا ،اے سی اور بہت سی ایسی نعمتیں جن کا تصور پرانے زمانے میں ناممکن تھا انسان کو میسر ہے لیکن ناشکری،  حسد ، اور کی بھوک بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ہم سب کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کے لوگ بہت اچھے تھے بہت سمجھ دار تھے لیکن کبھی ان کی طرح زندگی گزرنے کا سوچا ہے۔ کبھی ان کے زندگیوں پر غور کیا ہے۔ اج کا انسان چار پانچ گھنٹے میں پاکستان سے سفر کر کے مکہ پہنچ کر  عمرے اور حج کی سعادت  حاصل کرتا ہے۔ پرانے مشقتوں،  لمبی سفروں سے چھٹکارا پا کر آرام سے زندگی گزار رہا ہے ،  گرمی میں اے سی ، پنکھا  چلا کے اور سردی میں ہیٹر کے سامنے بیٹھ کر آرام سے زندگی گزرتا ہے لیکن ناشکری اور بھوک ختم نہیں ہوتی ۔

پیسے کا جو آج ریل پیل ہے یہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔ لیکن دیے ہوئے پر ناشکری ہر منہ سے عیاں ہے۔۔۔۔
اللہ کا شکر ، اپنے حصے پر صبر انسان کو دنیا میں انمول بنا دیتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے ،،،لئن شكرتم لاذيدنكم،،، شکر کرو گے تو اور زیادہ کرونگا لیکن ہم نے فارمولا بنایا ہے زیادہ بھاگو گے ، زیادہ حسد کرو گے، زیادہ ناشکری کروگے تو اور زیادہ ملے گا ۔

اج ہر کوئی کیوں پریشان اور بے سکون ہے ؟ کیا سہولیات نہیں اس کے پاس؟، کیا پیسے نہیں اس کے پاس؟، نہیں ،سب کچھ ہے یہ سب  ناشکری اور زیادہ کی بھوک کی وجہ سے  ہے،،،،
اپنے حال پر خوش رہنا سیکھو،  اج سے زیادہ نہیں پانچ دس سال پہلے والی زندگی کے بارے میں سوچو جو اللہ نے دیا ہے اسے یاد کرو اس پر شکر ادا کرو جو نہیں دیا اس کی فکر چھوڑو،  جو دیا ہے وہ نہ ملنے والے سے زیادہ ہے لیکن سوچ اور دماغ والے لوگ نہیں ہیں صرف شکوے اور شکایات والے ہم کیوں خوشحال اور پر سکون ہو گے سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :