نیا پاکستان، نیا بیانیہ اور ریاست مدینہ کا تصور

منگل 6 اگست 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

پاکستان کی تاریخ میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے ملک پاک میں شعبہ جاتی،آئینی اور قانونی اصلاحات کرکے عوام کو بنیادی حقوق دئیے اور ملک کی نئے سرے سے تعمیر کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ ملک کو کھڑا کردیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا جو شہید بھٹو نے سرانجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ ملک وقوم کے لئے خلوص نیت سے خدمات نے ہی بھٹو شہید کو تاریخ میں امر کردیا۔

 عہد کی ستم ظریفی ہے کہ عوامی خدمات کی شہید بھٹو کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور ایک ایسے بیانیہ نے جنم لیا کہ جو آج تک پیچھا کر رہا ہے۔ شہید بھٹو کے بعد کے42سال ملک وقوم نے ایک ایسے بیانیہ کے تحت گزارے ہیں کہ جیسے زندگی اور موت کا کھیل ہو۔ وطنیت اور قومیت کو جذبات کی بھینٹ چڑھا کر تباہی و بربادی کے نئے نئے دروازے کھولے جاتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ضیاء آمریت اور پرویزمشرف کی بھیانک سیاست نے سیاست دانوں کی منڈیاں سجا کر سیاست کو گالی بنایا اور سیاست دانوں کو بکاؤ مال کے نئے معانی پہنا دیئے گئے۔ جمہوریت اور جمہوری رویوں کے خلاف مذہب کو ہتھیار کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں دہشت گردی کی جنگ کی صورت میں حاصل ہوئے۔ 
ملک ایک ایسی دلدل میں دھنستا گیا کہ طالب علموں کے ہاتھوں عشق رسول کے نام اساتذہ قتل ہونے لگے۔

سیکورٹی گارڈ ہی قاتل بن گئے۔ ملک وقوم کے محافظ اپنی حفاظت سے بھی عاجز نظر آنے لگے۔ ملک ایک دہشت گاہ بن کر رہ گیا تو پھر بیانیہ بدلنے کی بازگشت سنائی دی۔ عمران خان حکومت سے لاکھ اختلافات ہوں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ آئیڈیل صورتحال نہیں ہے۔ مگر حکومت جو اقدامات کر رہی ہے یہ بھی ایک ننگی حقیقت ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی حکومت ہے جس نے ملک وقوم کی تعمیر کے لئے اقدامات کا آغاز کیا ہے۔

جس میں معیشت کو دستاویزی بنانا اور ٹیکس نیٹ میں ہر شہری کو لیکر آنا،یہ اہم ترین کام ہے۔ کم ازکم کشکول لیکر در در مانگنا نہیں پڑے گا۔ عالمی مالیاتی اداروں سے بھی نجات حاصل ہوگی۔ فکری بنیادوں کی درستگی سمیت مذہبی اجارہ داریوں کا خاتمہ، مذہبی مدارس کی رجسٹریشن،یکساں نصاب تعلیم، مذہب کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی،مسلح مذہبی گروہوں پر پابندی حکومت کے شاندار کارنامے ہیں۔

وزیر اعظم سٹیزن پورٹل سے عوام کے بے شمار مسائل آسانی سے حل ہورہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بار ہوا ہے کہ عام آدمی کی رسائی وزیر اعظم ہاوس تک ممکن بنائی گئی ہے۔ 
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کے ساتھ افواج پاکستان کھڑی ہے۔ افواج پاکستان ہر طریقے سے عمران خان حکومت کو سپورٹ کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے پاس حکومتیں رہی ہیں۔

نواز شریف پاکستان کے اکلوتے بڑے لیڈر کے پاس ملک وقوم کی تعمیر کا کیا وژن تھا۔ کیا پروگرام تھا۔ مریم نواز چیخ رہی ہے۔ عوام کے سامنے رکھیں کہ مسلم لیگ کے فلاں قومی ایجنڈے اور پروگرام کو سبوٹاژ کرکے نئی حکومت لائی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں کام تو ضرور ہوا مگر پیپلزپارٹی عوام میں اپنی مقبولیت اس لئے کھوچکی تھی کہ پارٹی میں قیادت کا شدید فقدان موجود تھا۔

بلاول کے خیالات اور وژن درست سمت کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں مگر افسوس کے پاکستان میں بادشاہت نہیں ہے۔ بلاول کو ابھی سیاسی سفر طے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام عمران خان کے بعد بلاول کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان حکومت کے آنے سے سیاسی اجاریوں کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ نئی قیادت بھی سامنے آئی ہے۔ مجموعی طور عوام نے نئی حکومت،نئی قیادت، نیا پاکستان اور نئے بیانیہ کو قبول کرلیا ہے۔ آنیوالے دنوں میں ناقدین ریاست مدینہ کے تصور کو بھی سمجھنے لگیں گے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :