بیرون ملک ہم وطن اور مینڈک

ہفتہ 3 جولائی 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

کہتے ہیں برسات کے موسم میں بارشیں ذیادہ ہونے کی وجہ  سے سیلاب آ گیا اور  اور جہاں ہر چیز درہم برہم ہو گئی وہاں  ایک مینڈک بھی دریا سے پانی کے  بہاؤ کے ساتھ ندی نالوں سے ہوتا ہوا ایک کنویں میں جا رکا ۔ کیونکہ جب پانی کم ہونا شروع ہوا تو  وہ کسی کنویں کے کنارے  سو رہا تھا بس سوتا ہی رہ گیا اور اس نے کنویں  پانی میں رہنا شروع کر دیا ۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس نے اس کنویں کے ماحول کو اپنانے کو کوشش کی مگر سمندر کی یاد اسے بہت ستاتی ۔ کنویں کے مکین جو مینڈک تھے بہت کوشش کرتے کہ جب ان کا نیا دوست غمگین ہوتا   تو اس کا دل بہلاتے مگر وہ کہتا کہ تم کیا جانو سمندر کتنا بڑا ہوتا ہے ۔ ایک مینڈک  غوطہ لگاتا اور ایک دیوار سے دوسری دیوار  تک جاتا اور کہتا کہ  کیا سمندر اتنا بڑا ہوتا ہے مگر جواب ملتا نہیں اس سے بہت بڑا ۔

(جاری ہے)

بار بار غوطے لگا کر ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ کیا اتنا بڑا ہوتا ہے مگر وہ سمندر کے مینڈک کو خوش نہ کر سکے کیونکہ وہ ایک ہی جواب دیتا  نہیں تم کیا جانو  وہاں کیا ہوتا ہے ۔ آخر  کنویں کا مینڈک  سمندر کی گہرائی  اورلمبائی ثابت  کرتے کرتے سانس پھول جانے کی وجہ سے مر گیا ۔
جمہوریت  میں انسانوں  کے حقوق کی بہت بات کی جاتی ہے مگر یہ صرف باتوں تک ہی محدود رہ جاتی ہے ۔

خاص طور پر میرے پیارے وطن پاکستان کے جدی پشتی سیاست دان جو نسل در نسل حکومت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ مطلب پرست ٹولہ جو ہر وقت چاپلوسی کے علاوہ نا  کچھ ان کو آتا ہے اور کرنے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ۔ پہلی  بار کسی وزیر اعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی بات کی ہے اور  وہ جانتا ہے کہ ملک سے دور رہنے والے اپنے وطن کا کتنا سوچتے ہیں اور ان کو کتنا خیال ہوتا ہے وہ ہر کام اور پالیسی سے باخبر ہوتے ہیں ۔

مگر کچھ نہایت ہی اعلی نسل کے بیوقوف مینڈک جن کا تجربہ اس کنویں کے مینڈک کی طرح ہے یا پھر وہ اپنے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے کہتے ہیں جو لندن ، دبئی ، یا  امریکہ  میں رہتا ہے کہ ناروال  اور لالہ موسی میں کیا ہوتا ہے ؟ نہیں جانتے ۔ اصل میں ان کو بیرون وطن پاکستانیوں کے پیسے تو پیارے ہیں مگر ووٹ کا حق نہیں دینا چاہتے کیونکہ  ان مینڈکوں کو پتہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی کا ویثرن کیا ہے ۔

وہ جانتے ہیں کون اچھی پالیسی لائے گا اور کون لوٹ مار کرے گا ۔ کون اچھا کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا ۔ پہلی بار کسی  نے اچھے فیصلے کرنے کا قدم اٹھایا ہے تو نسل در نسل حکمرانی کرنے والے سیاست دان مرنے والے ہو گئے ہیں  کوئی شرم ہوتی ہے کوئی غیرت ہوتی ہے مگر ان کو کیا پتا غیرت اور شرم کس پھل کا نام ہے ۔ غریب کے دس روپے گم ہو جائیں یا مل جائیں  تو وہ کنفیوز ہو جاتا ہے ۔ مگر مینڈکوں کے اکاؤنٹ میں پچیس ارب کوئی  ڈال  جاتے ہیں مگر ان کو پتا ہی نہیں کون ڈال گیا  اور ان کی صفائی دینے والے اللہ معاف کرے ۔ جو لوگ اپنے بچوں کی قسم نہیں دے سکتے وہ  وکالت کر رہے ہوتے ہیں ۔ اللہ ہدایت دے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :