امتحانات اور طلبہ کا ملک گیر احتجاج

بدھ 2 جون 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اگر ملک میں آن لائن تعلیم دی گئی ہے تو ہر طالب علم آن لائن کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکا کچھ طالب علم شہر میں رہ کر انٹرنیٹ افورڈ نہیں کر سکتے ان کا کہنا ہے ہمارے والدین فیس دیں یا انٹرنیٹ افورڈ کریں کچھ گاؤں سے شہر پڑھنے کے لیے آتے ہیں اور گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں اب حالات بہتر ہوتے ہی (این سی او سی) نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے میٹنگ کی جس  میں وقفے وقفے سے سکول,کالج اور یونیورسٹیز کھولنے کے ساتھ میٹرک اور  انٹر کے امتحانات جون میں لینے کا فیصلہ کیا جیسے ہی وزیرِ تعلیم نے اس بات کا اعلان کیا طلبہ کے تو حواس باختہ ہو گے ان کے لیے یہ فیصلہ ایسا تھا جیسے ان پر کوئی پہاڑ ٹوٹ گیا ہو اور ایسا کیوں نہ ہوتا جنہوں نے کچھ پڑھا ہی نہیں تقریباً ایک  ڈیڑھ سال فضولیات میں ضائع کیا لیکن ان سب حالات سے ان کو اس بات کا اندازہ لگانا چاہئے مشکل سے مشکل حالات میں بھی دن صرف چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور وقت ٹھہرتا نہیں گزر جاتا ہے لیکن ہمیشہ کی طرح طلبہ کے پاس احتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا وہ سڑکوں پے ووئی وانٹ جسٹیس کے نعرے لگانے لگے اور کچھ طالب علم اپنی جان کے خود دشمن ہیں وہ خودکشی کا قدم اُٹھا رہے ہیں صرف اس لیے کہ انہیں پروموٹ نہیں کیا گیا حالات کے پیشِ نظر لاک ڈاؤن اور آن لائن تعلیم کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن طلبہ میں پڑھنے کی عادت ہی نہیں رہی ان کی نظر میں امتحانات کسی ظلم سے کم نہیں ہیں وہ امتحانات جن سے کامیابی حاصل کر کے وہ آنے والی زندگی میں کامیاب فرد کی حیثیت سے اچھے مقام پر  فائز اور خوشحال زندگی گزاریں لیکن ہے تو پاکستانی ان کے حق میں کیا گیا بہتر فیصلہ بھی ان کو بُرا لگتا ہے درحقیقت ان کو عقل تب آتی ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہو حلانکہ ہونا ایسے چاہئے تھا کرونا میں ہمارا تعلیمی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا تھا ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو بھی بہت نقصان پہنچا امتحانات کا اعلان سنتے ہی ان طلبہ میں خوشی کی لہر ڈور جانی چاہئےتھی کیونکہ اگر دیکھا جائے تو ان طلبہ کو پڑھنے کے لیے بہت زیادہ وقت میسر تھا اور ہر طالب علم کے امتحان بہت اچھے ہونے چاہئے تھے انہیں اللہ تعالیٰ کے بعد وزیر تعلیم کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا کیونکہ طلبہ ہی ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں پاکستان تب ترقی کرے گا جب نوجوان تعلیم یافتہ ہوں گے لیکن سب اس کے برعکس ہوا اگر طلبہ نے پڑھا ہوتا تو آج ان کو سڑکوں پے نہیں نکلنا پڑتا آج یہ ووئی وانٹ جسٹیس کے نعرے نا لگا رہے ہوتے ان کے لیے امتحانات کا اعلان پہاڑ ٹوٹنے کےبرابر نہ ہوتا اور یہ طالب علم ڈیڑھ سال فارغ رہنے کے بعد کس جسٹیس کی بات کر رہے ہیں یہ طالب علم ان بچوں پر بھی نظر ثانی کریں جو پڑھنے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن اپنے گھر کے حالات کی وجہ سے پڑھائی نہیں کر سکتے ان کے والدین پیٹ بھرنے کے لیے بچوں کو روٹی دیں یا تعلیم کے اخراجات اُٹھائیں یہ اگر ان بچوں کو دیکھیں تو میرا خیال ہے پھر انہیں احتجاج اور خودکشی کرنے کی ضرورت نہیں یہ فضولیات میں وقت گزارنے سے پڑھ لیتے اس اُمید کے ساتھ کہ ایک دن کرونا سے چھٹکارا بھی ہو گا اور پیپر بھی ہوں گے تو آج یہ طالب علم نیک نیتی سے امتحان دیتے,آگے بڑھتے اور اپنے فیوچر کو سنوارتے.
 پڑھائی ان کے لیے اس شعر کا معنی رکھتی:
کروں گا کیا جو محبت(پڑھائی) میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :