چھوٹی اسمبلی میں بڑا ہنگامہ

منگل 22 جون 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

قومی اسمبلی کے بعد بلوچستان کی اسمبلی میں بڑا ہنگامہ سیٹیاں گالیاں, تھپڑ ,کتابیں پھینکنا  ایک دوسرے کو گملے مارنا,جوتے اُچھالنا میرے خیال میں پاکستان کے علاوہ ایسی سیاست کسی ملک میں نہیں ہوتی
اور ممکن ہے جو کتابیں ایک دوسرے پر پھینکی گئ ہوں ان کتابوں کے شروع میں لفظ پاکستان بھی لکھا ہو ہم کتابوں پے لکھے گے اپنے ملک کے نام کی قدر نہیں کرتے ہم کس حق سے خود کو پاکستانی کہتے ہیں وہی کتابیں جن سے تعلیم حاصل کر کے یہ وزراء آج قومی اسمبلی میں داخل ہوتے ہیں انہیں کتابوں نے ان کو اس قابل بنایا ہے آج یہ انہیں کو اُچھال رہے ہیں یہ کہاں کی سیاست ہے
 ہم اپنی کتابوں کی قدر نہیں کرتے پھر ہم اپنی آنے والی اور موجودہ نسلوں سے اپنی قدر کروانے کی اُمید کس حق سے رکھتے ہیں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال پر بلوچستان اسمبلی کے باہر جوتا اُچھالا گیا کیا یہ انسانیت ہے گملوں سے ایک دوسرے کو زخمی کیا گیا کیا یہ سیاست ہے ملک کی سب سے چھوٹی اسمبلی میں  بڑا ہنگامہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ سیاستدان خود کو نااہل کہلوانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیا یہ قائد کا پاکستان ہے؟ ہمیں اور تو کسی کام میں نہیں سیاست میں ہی اپنے آباؤ اجداد کو کاپی کر لینا چاہئے قائد نے ہمیں ایسا پاکستان نہیں دیا تھا جیسا ہم نے اسے اپنی نااہلی کی وجہ سے بنا دیا ہے  یہ وزراء میڈیا سے گفتگو کر رہیں ہوں یا قومی اسمبلی میں ہوں ان سب کا ایک ہی کام ہے ہر پارٹی دوسری پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہوتی ہے اور خود کو ایسا مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ عوام پر نہیں عوام ان پر ظلم کر رہی ہو یہ عوام سے ووٹ جن وعدوں کی بناء پر لیتے ہیں حکومت ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ وعدے پورے نہیں ہوتے اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جب ان کے پاس کسی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے دلیل موجود نہ ہو تو ولگر لینگوئج کا استعمال شروع کر دیتے ہیں
ابھی حال ہی میں بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں ہر پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جیسے ان کی حکومت بہت شفاف تھی ایسی شفاف کہ عوام بجلی سے محروم رہی اور اب انہیں غریب عوام کا اتنا خیال ہے تو ابھی تک سندھ کی عوام کو صاف پانی, روٹی,کپڑا,مکان سے محروم کیوں رکھا گیا ہے کتے کے کاٹنے سے ناجانے کتنے لوگ جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن کوئی ان کے اہلِ خانہ سے پوچھنے والا نہیں اگر ان کی حکومت اتنی اچھی تھی تو ابھی تک سندھ کی عوام کے سارے مسائل حل ہو جانے چاہئے تھے یہ سچ بول تو نہیں سکتے سچ سننے کی ہمت ہی پیدا کر لیں جب ان سب باتوں پر روشنی ڈالی گئ تو قومی اسمبلی سے فرار کا راستہ کیوں اختیار کیا.
 شیخ رشید کا کہنا ہے ہم پانچ سال تُن کے پورے کریں گے آپ پانچ سال تُن کے پورے کریں لیکن ان پانچ سالوں میں جن میں سے تین تو گزر گے ہیں بقیہ دو سالوں میں ایسے کام کر لیں کہ عوام آپ کی حکومت کو جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد کرے اور آپکو آنے والے وقتوں میں عوام سے ووٹ کی بھیک نہ مانگنی پڑے عوام سے ووٹ لینے کے لیے ان کو جو بریانی کی پلیٹ کھلائی جاتی ہے وہی پیسہ اس عوام کی مشکلات کو آسان کرنے کے کام آئے گا اسی پیسے سے ملک کے ہر خراب سسٹم کو ٹھیک کیا جائے گا ووٹ لینے سے پہلے عوام کو جو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں عوام کا دل ان سبز باغوں سے بھر گیا ہے اب وہ حقیقت والے سبز باغ دیکھنا چاہتے ہیں پچھلی حکومتوں کو نالائق ڈکلیئر کرنا چھوڑ دیں خود کچھ کریں وقت کی شاخ کو خود ہلائیں باتیں کرنے اور تنقید کرنے سے مسئلے حل ہوتے تو آج دنیا کا کوئی بھی مسئلہ,مسئلہ نہ ہوتا آج ہم نے کشمیر  بھی حاصل کر لیا ہوتا اور دنیا میں جہاں بھی مسلمان مشلکلات/ ظلم کا شکار ہیں ان سب سے  ان کو نجات مل گئی ہوتی.
کامیابی چاہتے ہو تو موقع دینے والے کو کبھی  دھوکہ اور دھوکہ دینے والے کو کبھی موقع نہ دو
افسوس ابھی تک تو عوام کو دھوکہ ہی دیا جا رہا ہے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :