بہترین ہم نشین کتاب ۔۔۔بک سٹریٹس ضروری کیوں ؟

پیر 3 فروری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

فارسی کاایک معروف قول ہے کہ ”ہم نشینی بہ از کتاب مخواہ کہ مصاحب بودگاہ و بے گاہ“کتاب سے بہتر ہم نشین تلاش کرنافضول ہے ،یہ ہر موقع پر ہی ساتھی اور رفیق ہے“ ۔کتاب سے بڑھ کر دنیامیں ایسی کوئی شے نہیں جوہمیشہ آپ کی دوست رہے ۔کتاب سے دوستی انسان کوشعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے۔علمی ترقی وعروج کا راستہ مطالعہ وکتب بینی سے ہوکر گزرتا ہے ۔

مطالعہ و کتب بینی کے بغیر علم وکمال ناممکن ہے ۔تھامس کارلائل(Thomas Carlyal ) کے مطابق ’کتاب دماغ کے لئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے جسم کے لئے غذا ضروری ہے‘۔عربی زبان کے نامور شاعرمتنبی کے شعر کا مصرعہ ہے ”وخیر جلیس فی الزمان کتاب “ کہ زمانے میں بہترین ہم نشین کتاب ہے اور اچھی کتاب اپنے قاری کے لئے دوست کی حیثیت رکھتی ہے ۔

(جاری ہے)

شورش مرحوم نے کہاتھا ”کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں “ ۔

کتابیں معلومات کے ثمر دار درختوں کی روشنی ہے جس نے گزرے زمانے کی شمع کو کسی بھی لمحے مدھم نہیں ہونے دیا۔فرانسیسی فلاسفر رینے ڈیس کارٹیس(Rene Descartes) کتب بینی کے بارے میں کہتا ہے کہ ”تمام اچھی کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے ماضی کی بہترین اشخاص کے ساتھ گفتگو کی جائے “۔امریکہ کے مشہور صدر ابراہم لنکن (Abraham Lincoln)کہتا ہے کہ ”کتابوں کا مطالعہ دماغ کوروشن کرتا ہے “۔

یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈس نے لکھا ”جونوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لئے مردہ ہوتا ہے ۔ مارکس (Marcus Tullius Cicero )نے درست ہی کہاتھا کہ کتابوں کے بغیر کمرہ ایسے ہی ہے جیسے جسم روح کے بغیر ہو۔ارنسٹ ہیمنگوےErnest Heimingway نے کہاتھا کہ دنیامیں کتاب جیسا وفادار دوست اور کوئی نہیں ہے۔جون ایلیا ء کہتے ہیں
میرے کمرے کوسجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
 سابق امریکی صدر ابراہم لنکن(Abraham Lincoln) کے بقول میرا سب سے بہترین دوست وہ ہے جو مجھے وہ کتا ب تحفہ دے جو میں نے پہلے نہ پڑھی ہو۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے علم وتحقیق کا دامن چھوڑ دیا وہ پستی میں گرگئی ۔کہتے ہیں کہ جن اقوام میں کتاب کی تخلیق ،اشاعت اور مطالعہ کا عمل رک جاتا ہے ،تو اس کے نتیجہ میں درحقیقت وہاں زندگی کا عمل رک جاتا ہے ۔کتاب شخصیت سازی کاایک کارگر ذریعہ ہی نہیں ،بلکہ زندہ قوموں کے عروج وکمال میں ان کی ہم سفر ہوتی ہے ۔اسی تاریخی حقیقت کو فرانس کے انقلابی دانشور والٹئیر(Voltaire)نے یوں بیان کیاتھا
 ” تاریخ انسانی میں چند غیر مہذب وحشی قوموں کو چھوڑ کر کتابوں نے ہی لوگوں پر حکومت کی ہے ۔

فرق صرف یہ ہے کہ جس قوم کی قیادت اپنے عوام کوکتابیں پڑھنا اور ان سے محبت کرنا سکھادیتی ہے وہ
دوسروں سے آگے نکل جاتی ہے “۔شہرہ آفاق فلسفی سقراطSocrates) (کا ایک قول ہے علم کودولت پر فوقیت دو،کیونکہ دولت عارضی ہے ،علم دائمی ہے ۔انگریز شاعر شیلے(Percy Bysshe Shelley) کہتا ہے کہ مطالعہ ذہن کوجلادینے کے لئے اور اس کی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے ۔ایک امریکی ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ پرانا کوٹ پہنواور نئی کتاب خریدو۔


(Wear the old coat,buy the new Book)
 مسئلہ صرف ترجیحات کا ہے آج اگر کچھ اقوام نے ترقی کی ہے تو اس کے پیچھے اس قوم کی تحقیق و جستجو کا بہت بڑا کردار ہے ۔وہ شخصیات جنہوں نے علم وادب ،تاریخ ،فلسفہ پر اپنا گہرا اثر چھوڑا ہے ان کا وسعت مطالعہ قابل رشک ہے ۔جیسے حکیم ابو نصر الفارابی (Al-Farabi)اپنے ذوق مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”تیل کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں سے کھڑے کھڑے کتاب کا مطالعہ کرتا تھا “۔

امام زہریImam Zahiri) (کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ ادھر ادھر کتابیں ہوتیں اور ان کے مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے کہ دنیا ومافیا کی خبر نہ رہتی ،بیوی ان کی اس عادت سے سخت پیچ وتاب کھاتی ،ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا ،اللہ کی قسم یہ کتابیں مجھ پر تین سو کنوں سے زیادہ بھاری ہیں ۔افتخار احمد عارف نے کہاتھا
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد توجوکچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
مگر آج ہمیں نوجوان نسل کتب بینی سے دور ہوتی نظر آرہی ہے ۔

ہمارے معاشرے میں کتب بینی بہت کم ہوگئی ہے اس کی وجوہات کیاہیں ؟آج نوجوانوں کی دانش ،ان کی سوچ وفکر اور ان کے نظریات شدید تنزلی کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی ،صارفین کی قوت خرید ،حصول معلومات کے لئے موبائل ،انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتاہوا استعمال ،ڈیجیٹل انفارمیشن کی ترویج ،کمرشل لائزیشن ،تیزرفتارطرز زندگی ،اچھی کتابوں کا کم ہوتا رجحان اور لائبریریوں کے لئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔

لائبریریوں میں کمی بھی کتب بینی سے دوری کی ایک وجہ ہے مگر باقی وجوہات بھی ہیں ۔انگریزی میں کہتے ہیں
The wrost is yet to come
لمحہ فکریہ ہے کہ کتابیں لوگوں کے دلوں سے ،سینوں سے اور شیشوں کی الماریوں سے نکل کر سڑکوں پر ہیں،کباڑخانوں میں ہیں ؟ ایسا کیوں؟ کتاب سے یہ بیزاری کیوں ؟لوگ کتابیں کیوں نہیں خریدتے اور پڑھتے ؟المیہ تویہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب کتابیں سڑک کنارے فروخت ہورہی ہیں جبکہ جوتے اور چپل شیشے کی الماریوں میں فروخت ہورہے ہیں ۔

اگر ہم پاکستان میں کتب بینی کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں فوڈ سٹریٹس کی طرح بک سٹریٹس بھی بنانی ہوگی اور لوگوں کو کتابوں کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہوگا ۔امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں اوسطا ایک سال میں آدمی سات کتابیں پڑھتا ہے،امریکہ میں چار کتابیں پڑھتاہے ۔اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہماری زندگیوں میں کمپیوٹر داخل ہوگیا ہے زیادہ تروقت ویڈیوگیمز،ویب سرچنگ ،ای میلز،سوشل میڈیا،چیٹینگ اور میوزک سننے ،فلمیں دیکھنے میں گزرجاتا ہے مگر اس المیہ کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں ہے ۔

ہم اپنے جس شاندار ماضی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ان کے نقش قدم پر چلتے نہیں ہیں یہی زوال کی وجہ ہے ۔اگر ہم امام غزالی(Abu Hamid Al Ghazali) کی مثال کو ہی دیکھیں تو اڑتیس برس کی عمر میں جامعہ نظامیہ کے وائس چانسلر کے عہدے سے الگ ہوکر غوروفکر اور مطالعہ کے لئے شہر سے نکل کھڑے ہوئے ،دس سال بعد واپس آئے ،پچپن سال کی عمر میں وفات ہوئی درمیان کے سات سال میں ان کے قلم سے ”تہافت الفلاسفہ “اور المنقذمن الضلال “ جیسی کتابیں نکلیں جنہوں نے فلسفہ یونا ن کا بھیجہ ہلادیا،گویا غزالی جیسا شخص ریئس الجامعہ بننے کے بعد بھی مطالعے کا محتاج اور تلاش حق کا آرزومندرہا۔

علامہ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاتھا
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
ثریاسے زمین پر آسمان نے ہم کودے مارا
وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی
جویورپ میں دیکھیں تودل ہوتاہے سی پارہ
مسلمانوں کا زوال اس کی واضح مثال ہے ،ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک بغداد علم وادب کا گہوارہ رہا۔سقوط بغداد ہوا تومسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات میں بہادئیے گے ۔

یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا ۔جب اندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلانے جلوادیا۔یہ وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے مگر رفتہ رفتہ علم سے دوری مسلمانوں کورسوائی کی طرف لے گئی ۔
 یورپ ،امریکہ اور دیگر اقوام نے علم وتحقیق سے ناطہ جوڑااور آج کہاں پہنچ گئے ہیں ۔

بہت سے عوامل مل کر انسان کوکامیاب بناتے ہیں ،جن میں ان کی محنت ،نظریہ اور مقاصد کے حصول کی سچی لگن شامل ہوتی ہے مگر کامیاب لوگوں میں ایک عادت قدرے مشترک ہے کہ یہ لوگ کچھ نیا سیکھنے کے لئے مختلف کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرتے ہیں کہاجاتاکہ ہر بڑے آدمی کی کامیابی کاراز وسعت مطالعہ ہوتا ہے ۔
امریکہ کے 32ویں صدر روزویلٹ(Franklin D.Roosevelt) اپنی آپ بیتی میں کتب بینی کی اپنی خصوصیت کو”لامحدود “ قرار دیتے ہیں ۔

روزویلٹ ایک ہی دن میں کئی کتابیں پڑھا کرتے تھے اور کتابوں کا انتخاب ان کے ادبی ذوق اور موڈ پر ہوتا تھا۔کچھ کتابوں کو وہ درمیان میں چھوڑ دیتے تھے اور پھر بعد میں انہیں دوبارہ شروع کرتے تھے ۔پس معمول کے دن میں وہ ناشتے سے پہلے ایک کتاب اور دوپہر اور شام تک وہ دو مزید کتابیں شروع کرلیتے تھے ۔بیسویں صدی کے سب سے کامیاب سرمایہ کارجوامریکہ کی 9 بڑی کمپنیوں سی ای او،سربراہ یاچیئرمین وارن بفٹ(Warren Buffett) اپنی بے انتہاکامیابیوں کارازگہرے مطالعہ کوبتاتے ہیں ۔

وارن بفٹ اپنے دن کے 5 سے6 گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں ۔بل گیٹسBill Gates) (کی زندگی میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ مطالعہ کی عادت بھی ہے ۔بل گیٹس کاکہناہے کہ وہ ایک سال میں 50 کتابیں باآسانی پڑھ لیتے ہیں۔ہر ہفتے ایک کتاب کامطالعہ کرنابل گیٹس کی عادت میں شامل ہے۔ایناکندلن (Anna Quindlen)
 نے How reading changed my life میں لکھاہے
کتابوں کی دنیاکے سفر کے دوران میں نے دوسری دنیامیں سفر نہیں کیابلکہ اپنی دنیامیں سفر کیاہے ۔

تھامس جیفرسن) (Thomas Jefferson نے کہاتھا کہ میں کتابوں کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔مطالعہ کتاب کو صاحب کتاب سے ملاقات بھی کہاجاتا ہے گویا کسی بھی شخص کی لکھی ہوئی کتاب پڑھنے کا مطلب ہے کہ ہم نے اس سے بلمشافہ ملاقات کرلی ،اس کے تجربات اور خیالات سے ہم سیکھ سکتے ہیں ۔ان کے افکار سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنے خیالات کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں ۔مگر اہم سوال یہ بھی ہے کہ کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں ؟ میکالے کا قول ہے کہ ”وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے ،لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہیں، اس سے وہ اچھا ہے جس کومطالعہ کاشوق نہیں“۔

مارک ٹوئن (Mark Twain)کے بقول جوشخص مطالعہ نہیں کرتااسے ان پڑھ آدمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں جو مطالعہ کرنہیں سکتا۔حضرت ابوالعباس کا قول ہے کہ کتابوں سے کسی فتنے اور بدمزگی کااندیشہ نہیں ہوتا،اور نہ اس کی زبان اور ہاتھ سے کوئی خطرہ ہوتا ہے ۔“تو مطالعہ ایسی کتابوں کا کرنا
 چا ہیے جونگاہوں کوبلند،سخن کودلنواز،اور جاں کوپرسوزبنادے ،اگر مطالعہ فکر کی سلامت روی،علم میں گہرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش اور بہار آفریں بھی ہوتو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہاجائے گا۔

مگر سب سے اہم مشورہ پاکستان کے مشہور ادیب واہل قلم صاحبزادہ خورشید گیلانی مرحوم نے دیا ہے کہ میرا جودوست یہ چاہتا ہے کہ اس کے قلب میں ذائقہ اور اس کی زبان میں رونق آجائے ،اسے چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرے ،دینیات ،تاریخ،فلسفہ ،ادب ،سوانح عمری،عمرانیات ،سیاسیات،عصریات جوکچھ میسر ہو،اسے نعمت سمجھے ،ایک وقت آئے گا،اسے قدرت حق وباطل میں تمیزبھی عطاکردے گی ،جھوٹ سچ میں امتیاز کا ملکہ بھی پیدا ہوجائے گا۔

وہ ثقافت اور ظرافت میں فرق بھی کرسکے گااور معیاری و بازاری لٹریچر میں حد فاضل بھی قائم کرسکے گا،بلکہ یہ کہوتو تعلینہ سمجھاجائے کہ وقت آنے پر کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ،کتاب کے لفظ وحرف خود بولنے لگ جائیں گے کہ ہم یہ ہیں اور ہمارا مفہوم یہ ہے ،جس طرح عشق بعد میں مچلتا ہے اور مذاق عاشقی پہلے پیدا ہوتا ہے ،اسی طرح علم بعد میں آتا ہے ،ذوق پھر ابھرتاہے“ ۔

ویسے بھی شاہسوار قلم کے لئے مطالعہ اتناضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لئے دانا اور پانی کی ضرورت ہے ،مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے ۔جان ملٹن (Jhon Milton)کاکہناتھا ”ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے ۔اس کومحفوظ کرنے کامقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح سے روشناس کرانا ہے“ ۔

ایک اور اہم سوال کہ مطالعہ کیسے کیا جائے تو امام شافعی(Imam Shafi) فرماتے ہیں ” علم ایک شکار کی مانند ہے کتابت کے ذریعے اسے قید کرلو“ ڈاکٹر صمت جاوید کا کہنا ہے کہ ”یاد رکھنے کے قابل بات ہمیں دوران مطالعہ معلوم کتابوں پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر نشان لگانے اور کتاب کی پشت پر سادہ اوراق میں اہم نکات کو کاپی یاکاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کرلیں “۔

اس لئے دوران مطالعہ قلم کاپی لیکر اہم نکات کو نوٹ کرنا چاہئے اور نوٹس لینا بہت ضروری ہے ۔عموما کہا جاتا ہے کہ مطالعہ کے لئے وقت نہیں ہے اصل مسئلہ وقت نہیں بلکہ ہماری ترجیحات کا ہوتاہے ۔اگر ایک شخص روزانہ ایک گھنٹہ مطالعہ کرے اور ایک گھنٹہ میں 20 صفحات کا مطالعہ کرے تو ایک ماہ میں 600 صفحہ کی کتاب پڑھ سکتا ہے اور ایک سال میں7200 صفحات کا مطالعہ کیاجاسکتاہے ۔

بل فرض ایک شخص کی عمر 65 سال ہواور وہ اپنی تعلیم سے فارغ ہوکر25 سال کی عمر میں مطالعہ شروع کرے اس طرح وہ 40 سال مطالعہ کرے گااور اس مدت میں 224988000 (دو لاکھ اٹھاسی ہزار )صفحات پڑھ ڈالے گا،اوسطااگر ایک کتاب 80 صفحہ کی ہوتواس دوران 3600 کتابوں کامطالعہ کیاجاسکتاہے ۔اتنی کتابوں کے مطالعہ کے بعد آپکے علم اور نالج کی کیفیت کیاہوگی۔اس کے علاوہ مطالعہ کے بہت سے فوائد ہیں۔

یہ یاداشت کوبہتر بناتاہے،مطالعہ آپ کے ذخیرہ الفاظ کوبڑھاتاہے ۔ایک تحقیق کے مطابق ہم اپنے بولے جانے والے الفاظ کاپانچ سے پندرہ فیصد ذخیرہ مطالعہ کے ذریعے ہی اپنے ذہن کاحصہ بناتے ہیں ۔مطالعہ زندگی کے مقاصد کے حصول میں ہمارا مددگار ہوتا ہے ۔پڑھنے کی عادت دماغ کونوجوان رکھتی ہے ،یہ ذہنی تناؤ کودور بھگاتاہے۔ایک برطانوی تحقیق کے دوران جب رضاکاروں کوذہنی پریشانی کاباعث بننے والی سرگرمی میں شامل کیاگیاجس کے بعد کچھ منٹ کے لئے مطالعہ کرنے ،موسیقی سننے یاویڈیوگیمز کھیلنے کاموقع دیاگیاتونتائج سے معلوم ہواکہ جن لوگوں نے مطالعے کوترجیح دی ان میں تناؤکی سطح 67 فیصد تک کم ریکارڈ کی گئی جوکہ دیگر گروپس کے مقابلے میں بہت زیادہ نمایاں تھی۔

ہمارے معاشرے میں کتب بینی کارجحان بہت کم ہوگیاہے اس کوبڑھانے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔جس طرح ملک میں فوڈسٹریٹس قائم ہیں اگر وطن عزیز میں بک سٹریٹس بھی قائم کی جائیں جس میں متنوع موضوعات پر کتابیں ہو تو اس سے لوگوں بلخصوص نوجوانوں نسل کو کتابیں خریدنے وپڑھنے کی ترغیب ملے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :