انصاف والوں کی حکومت میں انصاف ناپید کیوں ؟

جمعرات 5 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

تحریک انصاف جس کے نام میں ہی انصاف آتا ہے اس کے دور حکومت میں انصاف ناپید ہے ۔مقدمات کے فیصلے تکلیف دہ حد تک تاخیر کا شکار ہیں بعض صورتوں میں تو کیس نسل در نسل چلتا ہے ،آخر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں کیا ہیں ؟ ان رکاوٹوں کو دو ر کیوں نہیں کیا جاتا ؟ عمران خان جو دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے ان کے دور میں امیر وغریب کے لئے الگ قانون کیوں ہے ؟ عمران خان اپنی تقریروں میں اکثر کہتے ہیں کہ اگر طاقتوروں کو چھوڑ دیا جائے اور کمزوروں کو پکڑ لیا جائے تو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جرائم کے خاتمے کے لئے بڑے مگر مچھوں کو پکڑنا ضروری ہوتا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے ڈیڑھ سال سے زائد اپنے دوراقتدار میں اس وعدے کو عملی شکل دینے کے لئے کیا کیا ہے ؟جس سپیڈی جسٹس کا وعدہ کیا تھااس کے لئے اب تک کیا انقلابی تبدیلیاں کی ہیں ؟ کیا کسی ریاست کا نظام بغیر عدل وانصاف کے چل سکتا ہے تو جواب یقینا نہیں میں ہے عمران خان تو ویسے ہی پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کا نعرہ لگاتے ہیں ۔

(جاری ہے)

حکومت کے وزیروں ومشیروں سے جب صحافی پوچھیں تو جواب ملتاہے کہ عدالتیں مجرموں کو ضمانتیں دے دیتی ہیں ،باہر جانے کی اجازت دے دیتی ہیں ، جبکہ غریب آدمی کے مقدمے کی سالوں شنوائی ہی نہیں ہوتی لوگ مقدمات کے تاخیر کی شکایت کریں تو کس سے کریں
کسے وکیل کریں ،کس سے منصفی چاہیں
سیاستدانوں کی آپس کی سیاسی چپقلش اور ملٹری سول تنازعات کی وجہ سے عام آدمی کوانصاف کی فراہمی ریاستی اداروں ،حکومت ،میڈیا ،سیاستدانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے پس پشت چلاجاتا ہے ۔

اس نے عدلیہ اور عدالتی نظام کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ عام آدمی کا نظام پر اعتماد بھی کم کیا ہے ۔عملی طور پر ہمارانظام انصاف انتہائی پچیدہ ،دشوار،مہنگا اور مشکل ہے جس سے کسی عام آدمی کو انصاف ملنا بہت مشکل ہے ۔اوپر سے نیچے تک کرپشن ،جھوٹی گواہیوں ،گواہوں کوڈرا دھمکا کر بیان دلوانا،کمزور مدعی کو طاقتور طبقوں، اثررسوخ والوں کی دھمکیوں کے سرعام استعمال اور دیگر مسائل نے انصاف کوسائل کے لئے ڈراؤنا خواب بنادیاہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2019 کے اختتام پر ملک بھر کی عدالتوں میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد18 لاکھ سے زائد تھی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت43 ہزار، لاہور ہائیکورٹ میں ایک لاکھ اسی ہزار، سندھ ہائیکورٹ میں80 ہزار سے زائد، پشاور ہائیکورٹ میں36 ہزار ،بلوچستان میں4ہزار سے زائد جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں15 ہزار کے قریب مقدمات انصاف کے منتظر ہیں۔


مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہوتواب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
انصاف میں تاخیر ایک المیہ بن چکاہے ۔مجموعی عدالتی نظام کوچھوڑیں ملک کی اعلی ترین عدالت کاحال یہ ہے کہ جسے باعزت بری کردے اس کے بارے میں پتہ چلتاہے سالوں قبل فوت ہوچکاہے جس کی پھانسی کی سز اختم کردے تو پتہ چلے کہ اس غریب کو کب کا پھانسیء پر لٹکا دیا گیا ہے ۔

ایسے میں اگر کسی طاقتور کا مقدمہ آجائے تو چھٹی والے دن بھی عدالت لگا کر ان کوضمانت دی جاتی ہے ،پوری ریاستی مشینری اس کے لئے متحرک ہوجاتی ہے جبکہ غریب مرغی چور سالوں جیل میں پڑا رہتاہے ۔بعض کیسوں میں تو دادا کے کیس کا فیصلہ پوتے کے دور میں ہوتا ہے ۔انصاف کی کارفرمائی میں بلاوجہ تاخیر بھی ناانصافی کے مصداق ہے ۔نظام انصاف پر سوالیہ نشان اس وقت لگتا ہے ، نظام پر عوام کا اعتماد مجروع ہوتا ہے جب قوم دیکھتی ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے آزاد گھوم پھر رہے اور الٹا پروٹوکول انجوائے کررہے ہیں ۔

بہت سے کیسز جن میں طاقتور لوگ ملوث تھے اوران کا میڈیا پر بہت چرچا رہا مگر ان کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا ۔ڈاکٹر عاصم کا کیس ،شرجیل میمن کا کیس ،ماڈل ایان علی کاکیس،سانحہ بارہ مئی کا کیس آج تک اس مقدمہ پر کچھ نہیں ہوا ۔گذشتہ سال سے احتساب کے نام پر پکڑے جانے والے سیاستدانوں سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت کیوں واپس نہیں آئی یہ سوال پوچھنے میں قوم حق بجانب ہے ؟ مالم جبہ سکینڈل میں ملوث اعلی حکومتی شخصیات کے خلاف کارووائی کیوں نہیں ہوئی ؟ بی آر ٹی منصوبے کی تاخیر کی وجہ بننے والے لوگوں کا احتساب کیوں نہیں ہوا ؟ رینٹل پاور کیس کا نتیجہ آج تک کیوں نہیں نکلا؟ایل این جی کیس ،نندی پور پاور پراجیکٹ ،منی لانڈرنگ کیسز ،بڑے منصوبوں میں کک بیکس کے کیسز، پنجاب سپورٹس فیسٹیول میں کرپشن کا کیس ،بلوچستان میں ہوشرباکرپشن کے درجنوں کیسز،صاف پانی پراجیکٹ کیس، مبینہ ملکی خزانہ لوٹنے والے و نقصان پہنچانے والے اسحاق ڈار کو واپس کیوں نہیں لایا گیا ؟ بے نظیر ائیر پورٹ کرپشن کیس ،راؤ انوار کا کیس ،56 کمپنیوں کا سکینڈل ،عابد باکسر کا کیس ، جعلی پویس مقابلوں میں مارے جانے والے لوگوں کے درجنوں کیسز ،حسین حقانی کیس مگر قوم ان کیسز کے نتائج کو اگر دیکھے تو نتیجہ صفر جمع صفر ہی نکلتا ہے ۔

سانحہ ساہیوال و سانحہ ماڈل ٹاؤن اس حکومت کے لئے ٹیسٹ کیس تھا مگر وزیراعظم آج تک سانحہ ساہیوال کے مقتولین کوصحیح معنوں میں انصاف نہیں دلا سکے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جس طر ح بربریت کرکے بے رحمی سے 14 لوگوں کو قتل کیا گیا ستم ضریفی تو یہ ہے اس کے لواحقین بھی آج تک انصاف کے منتظر ہیں ان کے کیس پر کبھی سماعت نہیں ہوتی اگر مہینوں بعد ہو بھی تو نئی تاریخ ،تاریخ پر تاریخ ،ایک عدالت سے دوسری عدالت ، ایک بنچ سے دوسرا بنچ ، اگر سپریم کورٹ جے آئی ٹی بناتی ہے تو دوسری عدالت اس پر حکم امتناعی دے کر کام سے روک دیتی ہے ۔

لواحقین انصاف کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں کبھی انسداد دہشت گردی کی عدالت ، کبھی ہائیکورٹ ،کبھی سپریم کورٹ ، کبھی احتجاج مگر انصاف ملنے کی بجائے جو لوگ انصاف کے لئے احتجاج کررہے تھے ان پر مقدمات بنے وہ جیلوں میں ہیں ۔بقول حبیب جالب
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر ہمیں جو فیصلہ دیں گے
گذشتہ دنوں اخبار میں خبر تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف احتجاج کرنے والے قیدیوں میں سے ایک غریب قیدی سلطان ملتان نشتر ہسپتال میں بہت سخت بیمار ہے مگر اس کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہے اور اس کوعلاج کروانیکے لئے ضمانت نہیں مل رہی ۔

اگر اس مثال کو ہم میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ موازانہ کریں تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ طبقاتی نظام انصاف میں طاقتور و کمزور کے لئے الگ الگ قانون ہے ۔وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو اس کیس کا بہت ذکر کرتے تھے مگر اب ان کی زبان پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کبھی نہیں سنا اس کی وجہ تو وہ خود ہی بتاسکتے ہیں ۔کراچی کا سانحہ بلدیہ ٹاؤن جس میں ایک فیکٹری کے ڈھائی سو سے زائد مزدور زندہ جلائے گئے مگر ان کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا ۔

ملک میں جو احتساب کا عمل جاری ہے اس کا نتائج کی بھی قوم منتظر ہے یہ الگ بحث ہے کہ اس احتساب کے عمل پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں ۔کچھ سیاسی تجزیہ کار اس سارے عمل کو سیاسی انتقام و اپوزیشن کودبانے کا نام دیتے ہیں مگر اس ساری الزام تراشی و فلسفیانہ باتوں میں عام آدمی کی کسی کو فکر نہیں ۔غریب ومجبورشخص جس کے پاس وکیل کرنے کے لئے فیس بھی نہیں ریاست اس کوانصاف دینے کے لئے کیا اقدامات کررہی ہے عام آدمی تو وہ پوچھتاہے ۔

خلیفہ چہارم امام عالی مقام حضرت علی کا معروف قول ہے کہ ”معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں “۔قرآن پاک کی سورة النسا میں فرمان بار ی تعالی ہے کہ ”اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگوتو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ،اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتاہے بے شک اللہ سنتا (اور ) دیکھتا ہے “۔عدل وانصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کواستحکام بخشتاہے اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔

خلیفة المسلمین سیدنا عمر کے پاس ایک مصری شخص آیا اور کہا: ”آپ سے پناہ کی درخواست ہے، فرمایا تمہیں تحفظ حاصل ہے، بتاؤ کیا بات ہے؟ اس نے کہا: میرا عمرو بن عاص  کے بیٹے کے ساتھ گھڑ دوڑ کا مقابلہ ہوا، میں اس مقابلے میں جیت گیا اور وہ مجھے یہ کہتے ہوئے چابک سے مارتا رہا کہ میں معززین کا فرد ہوں۔ عمرو بن عاص  کو پتا چلا تو اس اندیشے سے کہ کہیں میں آپ کے پاس نہ پہنچ جاؤں مجھے گرفتار کرلیا۔

اب میں وہاں سے آزاد ہوکر آپ کی خدمت میں پہنچا ہوں۔ سیدنا عمر بن خطاب  نے گورنر مصر عمر بن عاص  کو لکھا کہ ایام حج میں آپ اور آپ کے فرزند دونوں مجھے ملیں اور مصری کو کہا کہ تم اس وقت تک یہیں ٹھہرو۔ حج سے فراغت کے بعد عمر بن عاص  اور ان کا بیٹا امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مصری بھی آگیا۔ سیدنا عمر بن خطاب نے مصری کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور لڑکے کو مارنے کا حکم دیا تو اس نے بہت مارا۔

اس دوران امیرالمومنین فرما رہے تھے کہ معززین کے بیٹے کو خوب مارو۔ مصری نے آخر مارنا بند کیا اور کہا: ”اب مجھے انصاف مل گیا ہے‘ میرا دل خوش ہے۔“ امیرالمومنین نے عمرو بن عاص  سے فرمایا: عمرو! تم نے کب سے انسانوں کو غلام بنانا شرو ع کیا ہے؟ جب کہ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد پیدا کیا ہے ۔عمران خان جس ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اس میں تو عدل وانصاف ایسے ہوتا تھا جبکہ ہمارے ہاں ایسا قانون ہے جس میں بڑے پھنستے نہیں اور چھوٹے بچتے نہیں ۔

ارسطونے بلکل درست ہی کہاتھا ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔بڑے جانور اسکو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“۔پاکستان میں اس کی عملی عکاسی نظر آتی ہے ۔عظیم چینی فلسفی ”کنفیوشس“سے کسی نے پوچھا کہ”اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں۔ انصاف، معیشت اور دفاع اور بوجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے؟کنفیوشس نے جواب دیادفاع کو ترک کردوسوال کرنے والے نے پھر پوچھا اگر باقی ماندہ دو چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے؟کنفیوشس نے جواب دیا معیشت کو چھوڑدواس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہامعیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردینگے؟تب کنفیوشس نے جواب دیانہیں! ایسا نہیں ہوگا۔

بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اْس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا منصفانہ نظام لائے جس میں غریب آدمی کو فور ی وسستا انصاف مل سکے ۔اگر ہم ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرے میں عدل وانصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا ۔

حکومت کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بھی ذمہداری ہے کہ وہ اپناکردار اداکریں ،حق وسچ کاساتھ دیں ،ظلم وناانصافی کے خلاف آوازحق بلندکریں ،طاقتورظالم کی بجائے کمزور مظلوم کا ہمنوا بنیں۔ اجتماعی انسانی زندگی کی ہر ہر اکائی کے ساتھ عدل کرنے کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ یعنی فرد معاشرہ سے عدل کرے‘ معاشرہ فرد سے عدل کرے‘ عوام حکومت کے ساتھ عدل کریں‘ حکمران عوام کے ساتھ عدل کریں تو پھر ایک ایسا عادلانہ نظام قائم ہوسکتا ہے جہاں کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی کسی پر ظلم نہیں ہوگا‘ کہیں منافقت نہیں ہوگی‘ کہیں کرپشن اور بدعنوانی نظر نہیں آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :