اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول پارٹ ٹو

جمعہ 7 ستمبر 2018

Ayesha Kamran

عائشہ کامران

گزشتہ سے پیوستہ (ماں ام سلمہؓ کو غش سے ہوش آیا بیٹے کو گلے سے لگایا منہ چوما ،دیکھ بیٹا میں تجھے نہیں روکتی مگر میری ایک خواہش ہے کہ جس جس بھی منزل پر پہنچنا مجھے اپنی خیریت کی خبر دیتے رہنا رات کا تیسرا پہر گزرنے کو تھا ہجرت کی تیاریاں تیزی سے جاری تھیں یہ ہجرت انبیاؑ کو کرنی پڑئیں چاہے ابراہیم ؑ ہوں یا اسماعیلؑ یا کائینات کے رحمت العالمینﷺ ۔

مگر محمدﷺ کو ہجرت رات کے وقت خوف کے عالم میں کرنا پڑی مگر یہاں منظر کچھ اوور تھا تمام دن آپؓ کہتے رہے مدینہ کے لوگو میں اسی مدینہ میں پیدا ہوا اسی مدینہ شہر میں پرورش پائی تم نے مجھے مدینہ کے بازروں میں نانا کے کندھوں پر سوار دیکھا تو ہو گا اب میں مدینہ چھوڑ رہا ہوں ہر نبی ؑ نے ہجرت کی مگر کچھ عرصے بعد واپس آگئے مگر میں واپس آنے کے لئے نہیں موت کیلئے ہجرت کر رہا ہوں میں کوئی جنگ و جدل کیلئے نہیں جا رہا جو مال غنیمت کا لالچ ہو میں نانا کے دین کو بچانے اور امت کی اصلاح کے لئے ہجرت کر رہا ہوں جو کوئی بھی میرے ساتھ آنا چاہے خوشی سے آئے سب سے پہلے جس ہستی نے حسینؓ کی آواز پر لبیک کہا وہ آپؓ کے بڑے بیٹے سجاد تھے آپؓ نے اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا اور فرمایا سجاد! تم میرے بڑے بیٹے ہو تم میرے بازوں کا زور ہو مگر بیٹے مجھے ایک خدشہ ہے کہ چونکہ تماری ماں ایران کے شہنشاہ کی بیٹی تھی تمہاری رگوں میں شہنشاہی خون گردش کر رہا ہے کہیں شہنشاہی مزاج عرب کی گرمی ،سفر کی شدت، کربلا کا معرکہ برداشت نہ کرسکے ؟مگر زین العابدین نے اصرار کرکے کہا ۔

(جاری ہے)

ابا حضور !میں ضرور ساتھ چلوں گا ۔ اچھا بیٹا ،میرے ساتھ جانے والوں کیلئے جہاد دو طرح کے ہوں گے جن میں سے تمھیں ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ایک جہاد اکبر اور دوسرا جہاد اصغر ۔ بابا جہاد اصغر میں کیا کرنا ہو گا ؟ سنو بیٹا! اس جہاد میں ایک بیابان میں ایک وحشی فوج کے بیچ میں گھِرکے تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہونا ہوگا نہ قبر بنے گی نہ کفن ملے گا ۔

اچھا بابا !آپ کے سفر میں جہاد اکبر میں کیا کرنا ہوگا؟میرے لال وہ یہ ہے کہ ماں بہن پھوپھی بچوں کو ساتھ لیکر - ان کے بال کھلے ہوں گے سر کھلے ہوں گے بازاروں میں پھرائی جائیں گیں اور باوجود طاقت کے صبر کرنا ہوگا ۔ بیٹا! چونکہ تم ولدِاکبر ہو میری خواہش یہی ہے کہ تم جہاد اکبر کرو ۔بیٹا کیا تم تیار ہو بلکل اسی طرح حسینؓ نے پوچھا جس طرح ابراہیمؑ نے اسماعیلؑ سے پوچھا تھا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میں تمھیں اللہ کی رضا کیلئے زبح کر رہا ہوں کیا تم تیار ہو ؟اب سجاد نے دونوں ہاتھ امام کے قدموں میں رکھے اور فرمایا بابا !فکر نہ کریں پریشان نہ ہوں اگرچہ میرے جسم میں شہنشاہی غیرت کا خون ہے اگرچہ میں نازو انداز سے پلا ہوں، اگرچہ میں بابا علیؓ کی دعا کا ثمر ہوں ، اگرچہ میں عباس علمدار کا بہترین شاگرد ہوں مگر بابا آپؓ پریشان نہ ہوں آپؓ مجھے شکر گزار پائیں گے۔

اب مولا حسینؓ نے بیٹے کو قدموں سے اٹھایا سینے سے لگایا ۔میرا دل کہتا ہے کہ حسینؓ کی آنکھوں میں کوفہ کے بازار کا منظر عرب کے بازاروں کے منظر شام شہر کا منظر پھر یزید کے دربار کا منظر ضرور آیا ہوگا یہی وجہ ہے کہ جب سید سجاد جہاد اکبر کرکے واپس مدینہ لوٹے تمام وقت کربلا کو یاد کیا کرتے کبھی کربلا کی پیاس، کبھی علی اکبر کی برچھی، کبھی جون غلام کا معطر جسم ۔

کبھی بابا کی لاش کی پامالی ۔کبھی چند گھنٹوں میں کائینات کے چنے ہوئے افراد کا اپنے ہی خون میں لت پت ہونا ۔کبھی ہر کسی کی لاش دفن ہو جانا مگر اہلبیت و اصحاب کی لاشیں بے گورو کفن کھلے آسمان تلے لاوارث پڑے رہنا ۔کبھی خیام میں بغیر اِذن بدمعاشوں کا گھس آنا جب بھی کبھی دیکھتے کہ عید قرباں پر کوئی قصائی جانورذبح کر رہا ہے تو اس سے ضرور پوچھتے کہ بتا تو صحیح ؟کہ مذبوحہ کی کیا شرائط ہیں ؟قصائی کہتا کہ پہلے پانی پلاوء ہم جنس کے سامنے ہم جنس کوذبح نہ کرو چھری نرمی سے چلاو چھری تیز ہونی چاہیے آلہ کند نہ ہو، آپ قصائی سے کہتے اے قصائی آتجھے بتاوں کہ جب میرا بابا ذبح کیا گیا سامنے میری پھوپھیاں دُہایاں دے رہیں تھیں ، اے قصائی میرے بابا 3دن کے پیاسے تھے اے قصائی خنجر کند تھا ،اے قصائی انصاف نہیں کیا جانور کو زبح کرتے ہوئے تمام شرائط کا خیا ل رکھتے ہو مگر جب کائینات کے درخشان ستارے کو زبح کیا گیا نہ شرط نہ شروط ۔

کیا کیا لکھوں ؟کہاں تک لکھو ں؟ سید سجاد جب جہاد اکبر کے بعد مدینہ واپس آئے شامزی نامی حکومتی عالمِ دین نے کہا سید سجاد میرے بیٹے کی شادی ہے میری خواہش ہے کہ آپ بھی شرکت کریں آپ نے فرمایا اے عالم دین تجھے معلوم ہے میں جب سے کربلا سے جہادِ اکبر نبھا کر آیا ہوں میں نے شادیوں میں جانا چھوڑ دیا ہے عالمِ دین کچھ سوچ میں پڑ گیا پھر کہا اچھا سید سجاد اگر میں ایک محفل کا انعقاد کروں جس میں آپ کے جد کا ذکر ہو تو کیا تشریف لائیں گے؟ ہا ں ضرور آوں گا محفل شروع ہوئی ۔

محفل ختم ہو گئی۔سید سجاد جو اعلی مسند پر بیٹھے تھے نظر نہیں آ رہے، تلاش شروع کی گئی تو دیکھا کہ حاضرین محفل کی جوتیوں میں بیٹھے تھے، گویا سمجھا رہے ہوں میرے جد کا ذکر کرنے والو تمہارا شکریہ میں تمہارا احسان مند ہوں ہا ں جہاد اکبر حسینؓ کے ولدِ اکبر نے ہی کیا جب مدینہ میں خبر ملی کہ مختار ثقفی نے قیام کیا اور قاتلان حسینؓ مارے گئے فوجی سردار منہال علی اصغر کے قاتل" حرملہ "کا سر لیکر مدینہ آیا اور کہنے لگا سید سجاد ہم نے قاتلان حسین کا انتقام لے لیا اب سوگ ختم کریں خوشیاں منائیں منہال کو دیکھ کر فرمانے لگے ۔۔۔۔ جاری ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :