ڈی ایٹ فورم : امید کی کرن !!!

منگل 20 اپریل 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

گزشتہ دنوں ڈی ایٹ تجارتی فورم کا دسواں آن لائن سربراہی اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہوا ۔ ترقی پزیر 8 (انگریزی: Developing 8) المعروف D-8 ترقی پزیر مسلم ممالک کا ایک اتحاد ہے جو اقتصادی ترقی کے لیے متحد ہوئے ہیں۔ 1997ء میں اپنے قیام کے وقت یہ ممالک مشترکہ طور پر دنیا کی کل آبادی کا 13.5 فیصد تھے۔ اس کے اراکین میں انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی، مصر، ملائیشیا اور نائجیریا شامل ہیں۔

یہ اتحاد 15 جون 1997ء کو ترکی کے شہر استنبول میں ایک اعلان کے بعد قائم ہوا۔ اس اتحاد کے قیام کی بنیادی وجہ ترکی کے سابق اسلام پسند وزیراعظم​ نجم الدین اربکان کی مسلم ممالک سے قربت کی خواہش تھی اور انہوں نے اس اتحاد کے ذریعے اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔ ڈی 8 کے مطابق اس گروپ کے قیام کا مقصد ترقی پزیر ممالک کو عالمی اقتصادیات میں نمایاں مقام عطا کرنا، تجارتی تعلقات کو متنوع کرنا اور ان میں نئے مواقع تخلیق کرنا، بین الاقوامی سطح پر فیصلہ سازی میں کردار کو بہتر بنانا اور بہتر معیار زندگی فراہم کرنا شامل ہیں۔

(جاری ہے)

رکن ممالک کے درمیان تعاون کے مرکزی شعبے مالیات، بینکاری، دیہی ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی ، انسانی ترقی، زراعت، توانائی، ماحولیات اور صحت ہیں۔
بنگلہ دیش کے علاوہ ہر رکن ملک کے نمائندے نے 14 مئی 2006ء کو انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہونے والے تنظیم کے پانچویں اجلاس میں خصوصی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ رکن ریاستوں کے درمیان مخصوص اشیاء پر محصولات کو کم کرنے اور اس عمل پر نگاہ رکھنے کے لیے ایک انتظامی مجلس کے قیام کے لیے کیا گیا۔

معاہدے کا مقصد رکن ریاستوں کے درمیان آزاد تجارت کی رکاوٹوں کو کم کرنا اور بین الریاستی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے دسویں ڈی ایٹ  سربراہی اجلاس سے خطاب کے دوران اپنا پانچویں نکاتی منصوبہ رکن ممالک کے سامنے پیش کیا ۔ جس میں کورونا وباء سے نمٹنے کےلیے ترقی پذیر ممالک کےلیے امدادی اقدامات،  2030تک رکن ممالک میں باہمی تجارتی حجم 100 ارب ڈالر سے 500ارب ڈالر تک بڑھانے، سرحدی معاملات آسان بنانے ، ڈی ایٹ پے منٹ کارڈ اور مقامی کرنسیوں میں لین دینے کی تجاویز کی حمایت، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی تجویز شامل تھی ۔


 لیکن کیا وجہ ہے کہ" ڈی ایٹ اتحاد" اقوام متحدہ ، نیٹو اور آسیان ممالک کی طرح اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کےلیے مئوثر ثابت نہیں ہوسکا ؟ حالانکہ فورم کے قیام کا مقصد ہر رکن ملک کی کاوشوں میں تعاون تھا ۔عالمی سیاسی منظرنامے پرکئ ایسی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں ، جس نے کئی ممالک کےدرمیان" تجارتی رقابت" کے رحجانات کو فروغ دیاہے۔ موجودہ دور میں کمزور معیشت کی حامل ریاستیں عالمی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کرنےمیں ناکام نظر آتی ہیں ۔

دنیا کے بیشترممالک  معاشی مفادات کے تحفظ کو بین الاریاستی دوستانہ روابط کے قیام کی بنیادی اکائی سمجھتے ہیں ۔ اور وہ اپنےحریف ممالک کو اقتصادیات کے میدان میں مات دیناچاہتے ہیں ۔ لہذٰا ڈی ایٹ کو ایک مئوثر اورمثالی معاشی اتحاد بننےکی ضرورت ہے ، تاکہ رکن ممالک باہمی تعاون سے معاشی مسائل سے نبردآزما ہوسکیں ۔ چنانچہ ہمارا برادر ملک " ترکی " ڈی ایٹ فورم کو ایک مزیدمضبوط اور مئوثرمعاشی اتحاد میں بدلنے کاخواہاں ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ڈی ایٹ فورم کے دسویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بہترین تجاویز پیش کی ہیں۔ ترک صدر ایردوان کئی سال سے مسلم ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ تجارتی لین دین کے لئے مقامی کرنسی کو ترجیح دیں۔دنیا کے آٹھ مسلم ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ڈی 8 کی معاشی تعاون کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقامی کرنسی میں تجارت سےکرنسی کی قیمت میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔

ترک صدر نے کہا کہ امریکی ڈالر میں تجارت سے دنیا کے بیشتر ممالک کی کرنسیوں پر بے پناہ دباؤ ہے، جس کے باعث ان ممالک کی مقامی کرنسیاں اکثر اوقات غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا شکاررہتی ہیں۔ انہوں نے ڈی 8 ممالک سے کہا کہ وہ ترکی کے ساتھ تجارت کے لئے مقامی کرنسی کو استعمال کریں تاکہ دنیا سے امریکی ڈالر میں زرمبادلہ کے ذخائر کا دباؤ کم کیا جا سکے۔

ترک صدر نے کہا کہ وہ 2017 سے یہ بات مسلسل دہرا رہے ہیں کہ مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دیا جائے تاکہ معاشی کساد بازاری سے بچا جا سکے اور کرنسیوں کی قیمت کو مستحکم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جا سکیں۔انہوں نے کہا کہ حالیہ 4 برسوں میں آنے والے معاشی اور مالیاتی بحرانوں نے مقامی کرنسی میں تجارت کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔انہوں نے عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ امریکی ڈالر میں تجارت سے دنیا کے کئی ممالک کی معیشتوں پر بوجھ بڑھ گیا ہے اور اس میں آسانی کے بجائے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اسلامی ممالک کی مالیاتی  ضروریات کو پورا کرنے لے لیے "اسلامی میگا بینک" کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ ڈی ایٹ ممالک کی مقامی کرنسیوں میں تجارت ، ایک نئے اور شاندار مسلم بینک کے قیام میں اپنا فعال کردار اداکرے ۔ یقیناً اگر مجوزہ بینک قائم ہوا تو پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے نکلنے میں کافی مدد بھی مل سکے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :