کیا اب بھی مریم نواز.......

پیر 9 دسمبر 2019

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

گزشتہ دنوں مریم نواز صاحبہ نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں انھوں نے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعا کی. انھوں نے تقریباً سولہ صفحات پر مشتمل اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ انکے والد شدید علیل ہیں اور لندن میں زیر علاج ہیں. جس کی وجہ سے وہ یعنی درخواست گزار شدید تشویش میں مبتلا ہیں. لہٰذا ان کا نام ای سی ایل سے نکال کر انکا پاسپورٹ واپس کیا جائے اور انھیں چھ ہفتوں کیلئے اپنے والد کی تیمارداری کی غرض سے لندن جانے کی اجازت دی جائے.

ہائی کورٹ میں آج ان کے کیس کی سماعت ہوئی. عدالت نے یہ کہہ کر درخواست خارج کر دی کہ سات دن کے اندر وفاق اس درخواست پر فیصلہ کرے. لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مریم نواز نے ایک کیس میں پہلے ہی ضمانت کروا رکھی ہے. اس کیس میں ضمانت کے وقت انھوں نے اپنا پاسپورٹ بھی عدالت میں بطور ضمانت جمع کروا رکھا ہے. اب عدالت سے تو یہ درخواست خارج کر دی لیکن اس درخواست نے ایک سمت کا تعین ضرور کر دیا ہے.

اکثر ماہرین یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ مریم نواز کسی دیگر قانونی طریقہ سے بہرحال لندن روانہ ہو جائیں گی. 
سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف علاج کی غرض سے پہلے ہی ملک سے باہر جا چکے ہیں. جب میاں نواز شریف پاکستان میں موجود تھے تو ان کی صحت کے حوالے سے انکے ترجمانوں نے پریس کانفرنسز، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے میڈیا کو اور عوام کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا.

یہ تک بتایا جاتا رہا کہ اب پلیٹلیٹس اتنے رہ گئے ہیں، اب اتنے ذیادہ ہو گئے ہیں، اب اتنے کم ہو گئے ہیں. بعدازاں عدالت میں میاں شہباز شریف کی جانب سے جمع کروائے گئے ایک بیان حلفی کے زریعے میاں نواز شریف صاحب کو علاج کی غرض سے عدالت نے لندن جانے کی اجازت دے دی اور وہ لندن چلے گئے. اس کے بعد حیرت انگیز طور پر ان کی صحت کے حوالے سے ایک معنی خیز خاموشی چھا گئی جو کہ تاحال برقرار ہے.

جب ہمارے جیسے لوگ ڈرتے ڈرتے کسی سے میاں صاحب کی صحت کے متعلق پوچھتے ہیں تو انھیں یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ ابھی ڈاکٹروں نے کوئی بھی بات کرنے سے منع کیا ہوا ہے. خیر یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔

(جاری ہے)

میاں نواز شریف کے لندن جانے کے ساتھ ہی انکے بھائی میاں محمد شہباز شریف بھی اپنے بھائی کی تیمارداری کی غرض سے لندن پدھار گئے. دو روز قبل میاں شہباز شریف صاحب نے لندن میں پریس کانفرنس کی.

انھوں نے کہا کہ ان پر اب تک ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہو سکی. پریس کانفرنس میں انھوں نے ان ہاؤس تبدیلی کی طرف بھی اشارہ کیا. یہ پریس کانفرنس تقریباً ایک گھنٹہ پر محیط تھی جس میں انھوں نے دیگر باتیں بھی کی. لوگ توقع کر رہے تھے کہ وہ بڑے میاں صاحب کی صحت کے متعلق بھی عوام کو آگاہ کریں گے لیکن حیرت انگیز طور پر انھوں نے میاں صاحب کی صحت کے متعلق ایک جملہ بھی ادا نہ کیا۔
میاں نواز شریف کے بعد میاں شہباز شریف کا لندن جانا اور اب مریم نواز کا والد کی تیمارداری کیلئے جانے کی درخواست دینے سے سیاسی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں مضبوطی پکڑ رہی ہیں کہ شاید مشرف کے دور کی طرح کا کوئی این آر او ہو چکا ہے یا مستقبل قریب میں ہونے جا رہا ہے.

حالانکہ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کوئی این آر او نہیں ہے جیسا کہ مشرف کہ دور میں دیا گیا. این آر او کا مطلب تمام مقدمات میں مکمل طور پر بے گناہ قرار دے کر ان مقدمات کی تمام سزائیں معاف کر دینا ہے لیکن یہاں ایسا ہرگز نہیں ہے. شریف فیملی پر کیس تو جوں کے توں برقرار ہیں اور وہ عدالتوں میں انکا سامنا بھی کر رہے ہیں. لہٰذا ہم اس کو این آر او کا نام تو بالکل بھی نہیں دے سکتے ہیں۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ فرض کر لیتے ہیں کہ مریم نواز بیرون ملک نہیں جاتیں لیکن شریف برادران واپس نہیں آتے تو پھر کیا ہو گا؟ اگر تو شریف فیملی کے واپس نہ آنے سے ملک میں جمہوری استحکام آتا ہے اور حکومت کو ان عدالتی کیسز وغیرہ سے نکل کر عوامی ایشوز پر بھی توجہ دینے کا وقت مل جاتا ہے اور کھل کر کام کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے ملکی معاشی لحاظ سے بھی مضبوط ہوتا ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے کیونکہ میاں برادران پر عدالت میں کیس تو برقرار ہیں.

کیس زیرِ سماعت بھی ہیں. کچھ کیسز نیب عدالت و ہائی کورٹ کی سطح پر ہیں اور کچھ سپریم کورٹ میں جا چکے ہیں. اس وقت تک تو کوئی ریکوری وغیرہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب تک آخری عدالت مجرم قرار نہ دے اور پراپرٹی یا ریکوری کی رقم کا تعین نہ کر دے. چنانچہ اگر سپریم کورٹ سے کوئی ایسا فیصلہ آتا ہے اور کوئی ریکوری کرنا ہوئی تو اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں رہا.

حال ہی میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو اربوں روپے وصول ہونے کی مثال ہمارے سامنے ہے. لہٰذا عدالتی فیصلے کی بناء پر جرمانے و ریکوری کی مد میں کسی بھی شخص سے رقم وصول ہو سکتی ہے چاہے وہ برطانیہ میں مقیم ہو یا پاکستان میں ہو. گویا برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی والے حالیہ کیس سے ایک راستہ کھل گیا ہے کہ مقدمات خواہ کہیں بھی چل رہے ہوں اگر ثابت ہو جائے تو ریکوری ہو سکتی ہے.
اگر اس ساری صورتحال کا سیاسی تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایک دلچسپ منظرنامہ بننے جا رہا ہے.

میاں نواز شریف علاج کی غرض سے برطانیہ میں موجود ہیں. میاں شہباز شریف بھی لندن میں مسلم لیگ ن کی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہیں، پارٹی رہنماؤں سے اہم میٹنگز میں مصروف نظر آتے ہیں اور ایک دھواں دھار پریس کانفرنس بھی کر چکے ہیں. اب مریم نواز بھی والد کی تیمارداری کی غرض سے لندن جانے کیلئے تیار ہیں. اگر مریم نواز شریف کو برطانیہ جانے کی اجازت نہیں بھی ملتی تو پھر بھی اس ساری صورتحال کو دیکھ کر بادی النظری میں لگ یوں رہا ہے کہ جیسے آئندہ کافی عرصہ کیلئے برطانیہ مسلم لیگ ن کی سیاست کا مرکز و محور بننے جا رہا ہے کیونکہ گزشتہ روز بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے تمام اہم رہنماؤں کا لندن میں ایک اہم اجلاس ہوا ہے.

اس ساری صورتحال کو دیکھ کر لگ یونہی رہا ہے کہ مسلم لیگ ن عملی طور پر پاکستان میں فعال رہے گی لیکن تمام اہم فیصلے برطانیہ میں ہوا کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :