امن کی آشا۔جنگ کی بھاشا

پیر 4 مارچ 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

نریندرا مودی تو مانے یا نہ مانے تیری ہندو جنتا اس کو تسلیم کرے یا اس سے انکار پلوامہ حملے کے بعد کی صورت حال میں پاکستان کے مثبت کردار سے تیرا خبث باطن دنیا کے سامنے آ شکار ہو چکا ہے کہ تو نفرت کا پجاری،تعصب کا بیو پاری اور امن کا دشمن ہے دہشت گردی کے خلاف تیرا بیانیہ منافقت اور مکاری پر مبنی ہے انتہاء پسندی کے خلاف تیرے سب دعوے اور بھاشن جھوٹے ہیں جبکہ پاکستان نے تیری نفرت ،تعصب اور جنگ کے اٹھائے ہوئے گرداب میں امن کا الاؤ روشن کرکے دنیا کویہ باور کرا دیا ہے کہ ہم امن کے پیامبر،انسانیّت کے علمبرادر ،انسانی و اخلاقی قدروں کی امین اور انسانی ترقی و خوشحالی کے متمنی ہیں دہشت گردی کا نہ ہم کل حامی تھے نہ آج ہم انتہاء پسندی کے حمایتی ہیں اور نہ کل ہم کسی ایسی دہشت پشندانہ کاروائی کے حق میں ہوں گے جس سے معصوم اور بے گناہ انسانی زندگیوں کا ضیاع ہو خواہ وہ کسی بھی مذہب تا فرقے کے خلاف ہو دنیا کے کسی بھی خطے یا ملک میں ہو البتہ ہم کشمیر میں لڑی جانے والی حق خود ارادیتّ کو کل بھی مبنی برحق مانتے تھے آج بھی کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی اورسفارتی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس وقت تک یہ جاری رکھیں گے جب تک ان کے غصب شدہ خقوق کوبحال کرکے ان کو ان کا حق خودارادیّت نہیں مل جاتاجمعہ کی سہ پہر کو انڈین پائلٹ ابھینندن کی بھارتی سینا کو حوالگی کے وقت واہگہ بارڈر پر پاکستان نے دنیا کو دکھا دیا کہ کہ اخلاقیات کیا ہیں انسانیّت کس کو کہتے ہیں اصول کیا ہیں اور اقدار کیا ہوتی ہیں امن کا پیامبر کون اور نفرت کا بیوپاری کون ہے امن کی آرزو کسی کی ہے اور جنگ سے تباہی کا خواہشمند کون ہے جب خیر سگالی اور انسانی جذبے کی بنیاد پر انڈین پائلٹ کو رہا کیا جا رہا تھا اس وقت بھی نریندرا مودی کے جنگی جنوں کی وجہ سے بھارتی فوج کنٹرول لائن پر شہری اور دیہاتی آبادی کو نشانہ بنا رہی تھی کشمیر میں دہشت و وحشّت کا ننگا ناچ ہو رہاتھا انڈین فوجی کشمیریوں کے جان ومال اور عزت و آبرو کو پامال کر رہے تھے یعنی باڈر کے ایک طرف امن کے داعی تھے اور دوسری طرف امن سلامتی کے دشمن مودی کے ناپاک ایجنڈے پر عمل کر رہے تھے پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری کا نام دے رہے تھے جبکہ خقیقت اس کے بالکل برعکس ہے پاکستان امن کا داعی ہے اور رہے گا پاکستان نہیں چاہتا کہ جنگ ہو خطے کا امن سکون برباد ہو غربت و افلاس کو سائیوں میں لوگ زندگی بسر کریں دوسرے خطوں کی طرح ہمارے لوگ بھی خوشحال ہوں ان کی زندگیوں میں آسانی آئے ان کا میعار زندگی بلند ہو خوشیاں ان کا مقدر بنیں مگر ہندوستان کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے آج تک یہ خطہ ترقی و خوشحالی سے کوسوں دور ہے( توبہ نعوذبااللہ ) انڈیا میں جس طرح سے غربت اور افلاس نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس کو دیکھ کر اور سن کر یوں لگتا ہے کہ خطے کی چودھراہٹ کا خواب دیکھنے والامودی پہلے اپنے لوگو ں کا حال تو جانے کہ وہ کس حال میں زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں ،۔

(جاری ہے)


مودی تیرا چودھراہٹ کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا اور نہ تیری یہ آرزو پایہ تکمیل کو پہنچے گی کہ تو جنوبی ایشیاء کا امریکہ ہے کیونکہ تیرا مقابلہ اس قوم سے ہے جو شہادت کی آرزو لیکر میدان جنگ میں اترتی ہے پاکستانی فوج کا جوان جب میدان جنگ کی جانب جاتا ہے تو چھاتی چوڑی کرکے بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میرا بیٹا شہادت کے لئے جا رہا ہے ماں کہتی ہے کہ بیٹا شہادت کے منصب پر فائز ہو کر واپس آنا تاکہ لوگ مجھے شہید کی والدہ کہیں بہنیں کہتی ہیں کہ بھیّا اس پاک مٹی پر قربان ہو جانا وطن کی خاطر اپنا لہو بہا دینا اپنے جسم کا ہر حصّہ اس دھرتی پر وار دینا پر اس پاک سر زمین پر دشمن کو اپنے ناپاک قدم نہ رکھنے دینا ،اس کا نظارہ بھارت کئی بار کرچکا ہے کہ جب بھی اس نے پاکستان کے خلاف جارحیّت کا ارتکاب کرنے کی مذموم کوشش کی تو اس کو منہ کی کھانی پڑی 1965کی جنگ ہو یا 1999کی چھیڑ خانی کارگل کی لرائی ہو یا اب کی بار پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی ،گریٹر انڈیا کا سپنا دیکھنے والوں کے مقدر میں ہر بار شرمندگی اور ہزہمت آئی ۔

کل رہائی سے پہلے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجونے ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے امریکہ ،برطانیہ ،روس،فرانس ،آسڑیلیا کے فوجی سربراہو ں کو مطکع کر دیا ہے کہ اگر انڈیا اپنی شرمناک حرکتوں سے باز نہ آیا تو پھر جارحیّت کا جواب جارحیّت سے دیا جائے گا عقل مندی اور دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ انڈیا جنگی جنون کو ختم کرکے اپنی اصلیت پر واپس آ جائے وگرنہ تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جائے گی ۔

ہم بھارت سے یہ کہنا چاہتے ہیں۔کہ وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر امن کی جانب لوٹ آئے اور کشمیر کے مسئلے کو بات چیت سے حل کرے کیونکہ امن اور سلامتی کا راستہ کشمیر سے ہو کر آتا ہے۔اسی میں اس کی بھلائی ہے ۔ورنہ وہ جانتا تو ہے ہماری استقامت سے ہمارے جذبوں اور حوصلوں ۔
ہم سے ٹکراؤ گے تو جیو گے کیسے
ہم تو ظلم کی ہر دیوار گرا دیتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :