آخری مغل کے نوابی وارث اورموت

جمعرات 31 جنوری 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

مجھے آج بھی وہ رات یاد ہے۔ آج سے نصف دہائی پہلے، طوفانی بارش میں مجھے میرے ایک پرانے ڈرائیور کا فون آیا،اس کی حاملہ اہلیہ سخت بیمار تھیں اور انتہائی نگہداشت وارڈ میں تھیں۔ وہ رو رہا تھا، تین بچوں کی ماں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں۔ میں اُسی وقت اُٹھ کر ہسپتال پہنچا، سخت بارش کی وجہ سے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ جب پہنچا تو وہ بیچاری آخری سانسیں لے رہی تھی۔

میں نے اس کی فائل اٹھائی اور ایک کاؤنٹر پر بیٹھ کر ڈاکٹری نظر سے اس کے کیس کا مطالعہ کرنے لگا۔ کسی کو کیا کہنا تھا، مگر اس ماں کے کیس کا میڈیکل آڈٹ شدید اذیت ناک تھا۔ ایک بے ہنگم ہجوم سے بنے بے حس معاشرے میں لا ابالی رویے کیا کرسکتے ہیں ،سب کوتاہیاں میرے سامنے سسکیاں لے رہی تھیں۔ اس جوان لڑکی کے پیٹ میں بچے کو مرے آج چوتھا دن تھا،اور وہ آج بھی اندر تھا۔

(جاری ہے)

اس کو دور دراز علاقے سے طبیعت خراب ہونے پر جب میرا ڈرائیور لے کر چلا تو قریبی ہسپتال سات گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ سردی کی کئی دنوں کی بارش کے سلسلے جاری تھے، غریب آدمی تھا، ایمبولینس نہ ملی تو لوکل گاڑیوں کے ہاتھوں ہر سٹیج پر بلیک میل ہوتا،ڈبل کرایا دیتا اس کوایک ہسپتال لے آیا۔یہ ہسپتال ایک ڈسپنسری نما بنیادی مرکز صحت تھا، یہ عورت وہاں دو دن پڑی رہی، ڈسپنر کبھی ڈرپ لگا دیتا اور کبھی تسلی۔

جو ڈاکٹر تعینات تھی،ان کی عمر گزر چکی تھی اور وہ قوم کے اسی لاپرواہ رویوں کی روش میں تھیں، نہ دیکھا،نہ اندازہ لگایا، بس دعا کی فریاد جاری رہی۔ حالت بگڑی تو ڈسپنسر نے ایک ایمبولنس والے سے جو شاید اس کا دوست تھا، کمیشن کی بنیادوں پر اس لڑکی کو ایک بڑے ہسپتال میں پہنچا دیا۔ یہ ڈرائیور ساری جمع پونجی لٹا کر یہاں پہنچا تھا۔رش، شدید رش، دھکوں ،گالیوں اور اگنور کرنے کے رویوں کے سیلاب سے گزر کر ایک دن ایمرجنسی میں بھی اس کو وہی لگتا رہا جو ڈسپنسری لگا رہی تھی، رویے بھی کچھ ویسے تھے اور بالاخر جب زہر پھیل گیا تو اسے انتہائی نگہداشت وارڈ منتقل کردیا اور چند لمحوں میں اس کی موت یقینی تھی۔

ہم اپنے سر سے اتارنے اور کرپشن میں کیا کیا گناہ کرجاتے ہیں، اس کا حساب اگلے جہاں کیا ہوگا؟ جو ہم اس جہاں کاٹ رہے ہیں۔ پھر ہم سب اپنے آپ کو مغلوں کو شاہانہ دور کا وراث کہتے ہیں، یہ جانے بغیر کے اس دور کا آغازِ عروج جس اکبر کے ہمہ وقت جاگنے اور کام کرتے رہنے کی عادت سے ہوا تھا،اس کا اختتام بہادر شاہ ظفر اور اس کی اولاد کے وہی لا ابالی اور نوابی رویے تھے،جو آج ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہے ہیں۔

 WILLIAM DALRYMPLE کی کتاب THE LAST MUGHAL 
میں زمانہ 1850ء کے مقام دلی کا ذکرہے وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے سول لائن میں بگل بج اٹھتا ہے ۔پچاس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ۔دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل گئی ہیں سات بجے انگریز مجسٹریٹ دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے کوتوالی اور شاہی دربار کے خطوں کا جواب دیا جا چکا ہے بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے ۔

یہ ہے وہ وقت جب لال قلعہ کے شاہی محل میں ''صبح'' کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ختم ہوا تھاجس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے اب کنیزیں نقرئی برتن میں ظلِ الٰہی کا منہ ہاتھ دھلا رہی ہیں اور تولیہ بردار ماہ جبینیں چہرہ، پاؤں اور شاہی ناک صاف کر رہی ہیں اور حکیم چمن لال شاہی پائے مبارک کے تلووں پر روغن زیتون مل رہا ہے،، ! اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا ۔

کتاب بند کی اور سامنے سمندر کو تکنے لگا۔ اندھیر ی رات میں کلفٹن کے ساحل پر طوفانی سمندر کی لہریں پتھروں سے ٹکراتی عجیب وحشت طاری کررہی تھیں۔ کچھ دیر کا سکوت ہوا اور سب ایسے تھم سا گیا کہ جیسے یہاں کچھ نہیں تھا۔ میرے دماغ میں وہی سمندر پورا طوفان لیے امنڈ آیا تھا۔ سمندر کے پانی پر چاند کی روشنی اور اس میں سسکتی موت کے منہ میں جاتی ماں کے تین سہمے بچے۔

یکا یک ہر طرف سے گولیاں چلنے لگیں۔ ایک کار پر قیامت کا نزول تھا۔ اسی کار سے ماں باپ کے خون میں لت پت تین بچے نکالے گئے اور انہیں بے حسی کے عالم میں ایک پیڑول پمپ پر چھوڑ دیا گیا،اس کے بعد انہیں وہاں سے اٹھا کر ایک ہسپتال کے باہر پھینک دیا گیا۔ یہ سب کرنے والا کوئی اور نہیں،اس ملک کا لاپرواہ اور اندھا قانون تھا کہ شاید جس کے جنم کا موجب ہم میں سے ہر شخص کا وہی نوابی رویہ تھا۔

کسی نے گاڑی کی تلاشی نہیں لی، کسی نے وحشت امر کرنے سے پہلے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق نہیں کی، بس قیامت برپا کرنی تھی،کردی گئی۔ کچھ وڈیوز، کچھ تصاویر بن گئیں اور سوشل میڈیا نے یہ سانحہ عام کردیا۔ ردِ عمل اس قدر شدید ہونے کے باوجود نیا پاکستان بھی اسی پرانی روش پر چل پڑا،وہی ہر لمحہ بدلتے بیان ،وہی لاپرواہ رویے ، وہی نوابیاں۔

جن کا جو لٹنا تھا لٹ گیا، ہمارا تو نہیں لٹا۔ کبھی آپ نے سوچا کہ یہ سب اسلام کے نام پر بنی ریاست میں ہو کیسے جاتا ہے؟ یہ ہمہ وقت ،ہر جگہ ہوتا ہے،کیونکہ یہ کرنے والے ہم خود ہیں۔ ہمارے وہ casual رویے ہیں جو خون بن کر ہماری رگوں میں دوڑ رہے ہیں، سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے جو بھی کیا وہ بھی اسی بنیادی غفلت کا شکار تھے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کے گھر دودھ دینے والا گوالا دودھ میں پانی کیوں ملتا ہے؟ آپ کے گھر کی ماسی پیسے لینے کے باوجود کام پر کیوں نہیں آتی؟ آپ کا دوست کلرک رشوت لیے بغیر کام کیوں نہیں کرتا؟ آپ کا نائی کام نہ سیکھے بغیر جھوٹ بول کر بال کیوں کاٹتا ہے؟ آپ کے بچے کے پرائیوٹ سکول اتنی فیس لینے کے باجود بچوں کو ٹیوشن کیوں پڑھانے کا کہتے ہیں؟ آپ کا ڈاکٹر مریض دوسرے پر کیوں پھینک دیتا ہے؟ آپ کی قوم کا انجینئر بڑے بڑے پراجیکٹ لٹکا کیوں دیتا ہے؟ آپ کے ملک کا سیاست دان ہر دفعہ نیا جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ آپ کے تمام سابق حکمران کرپشن کے مقدموں میں کیوں ملوث ہیں؟۔

اس کا جواب صرف ایک ہے کہ ہم بطور قوم آخری مغل کے وارث ہیں اور صرف حرام کھانا چاہتے ہیں۔ کوئی شخص کام کر کے راضی نہیں ہے، کام کرتا ہے تو ڈنگ ٹپاتا ہے اور اگر نیت کا عنصر شامل کربھی لے تو بد دیانتی شامل کرکے اسے حلال نہیں ہونے دیتا۔ایسے میں ہم مقابلہ آج رابرٹ اور ہینری کے وارثوں سے کرتے ہیں جو آج بھی صبح صادق اٹھتے ہیں ، پوری ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور جب ہم اپنے نوابی بستروں سے باہر آکر لاپرواہی،لاابالی پن اور کرپشن کے دلدل میں اترنے کی تیاری میں ہوتے ہیں،وہ آدھی دنیا فتح کرچکے ہوتے ہیں۔

ایسے میں جب کوئی قومی سانحہ ہوجاتا ہے تو ہم اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے لگ جاتے ہیں۔ سمندر کی لہروں پر چاند کی روشنی میں نظر آنے والے عکس پر آخری سسکیاں لیتی ماں کے تین سہمے بچے، یا گاڑی کی سیٹ پر پڑی چودہ سالہ اریبہ کی گولیوں سے چھلنی لاش، سب کو روندنے والے آخری مغل کے لاابالی رویوں کے وہ سر مست ہاتھی ہیں، جن کی اپنی منزل بھی موت ہے۔

سمندر کے سکوت سے اٹھی گونج یہی کہتی ہے کہ آج جن کی لاپرواہی، بے حسی دوسروں کے لیے موت لارہی ہے،کل وہ خود کسی کے اسی رویے کا شکار ہوں گے۔ صدیوں پر محیط آخری مغل کے وارثوں کے لا ابالی پن سے ،اس گرہن زدہ چاند کی کرنوں نے حالتِ سکوت میں کئی راز اگلتے سمندر کے خاموش پانی پر کتنے سہمے معصوم چہروں کی یاد کو تازہ رکھنا ہے،یہ وقت بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :